تحریر : سید انور محمود پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، 20 کروڑ کی آبادی والے ملک کی 65 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گذاررہی ہے۔ غربت کی اس بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ پینے کا صاف پانی یا تعلیم کا حصول ملک کی ایک کثیر تعداد کو میسر نہیں، ڈھائی کروڑ بچے کبھی اسکول نہیں گئے، سرکاری اسکولوں کا حال بد سے بدتر ہے جبکہ پرایئویٹ اسکولوں کی فیس عام آدمی کے بس سے باہر ہے۔ مسائل سے لڑتے ہوئے پاکستانی عوام ایک ایسے استحصالی اور شرمناک نظام میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں، جہاں اُنہیں آئی ایم ایف، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک کے وسائل پر مسلط چند فیصد مافیا نے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ نہ علاج کرانے کےلیے پیسے ہیں اور نہ پیٹ بھرنے کا کوئی مستقل سہارا۔
جمعرات 19 اپریل 2016ءکو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الائونسز میں اضافے سے متعلق تجاویز مراعات کے حوالے سے سفارشات پر مبنی ایک رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی، جس کی بعد میں قومی اسمبلی نے منظوری دیدی۔ قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی اس رپورٹ میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جس کے مطابق اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ 80 ہزار روپےسے بڑھ کر 2 لاکھ روپے ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ الاؤنس 2 لاکھ روپے، بزنس کلاس ایئر ریٹرن ٹکٹ یا واؤچر کی حد 3لاکھ روپے کرنے کی تجاویزپیش کی گئی ہے، جبکہ اسپیکر، چیئرمین سینیٹ کی بنیادی تنخواہ 4 لاکھ روپے، ڈپٹی اسپیکر و ڈپٹی چیئرمین 3 لاکھ 50 ہزار روپے، مختلف الاؤنس 6 ہزار روپےسے بڑھا کر 50 ہزار روپےکرنے کو کہا گیا ہے۔ بدقسمتی سےجمہوریت کے اس دور میں ان 65 فیصد افراد کی قطعی کوئی نمائندگی نہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں اور نہ ہی عام عوام کو جو غربت کی لکیر سے تھوڑا بہت اوپر ہیں،آصف زرداری اور نواز شریف نے اپنی کرپشن سے روزانہ کی بنیاد پر غربت میں اضافہ کیا ہے ۔ چار مرتبہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور اُس کے آخری دور میں آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں نے کرپشن کے سارئے ریکارڈ توڑ دیے، یہ ہی حال شریف برادران کا ہے۔
Shahbaz Sharif
شہباز شریف غریب عوام کو سستی روٹی دینے کے نام پر اربوں روپے کھاگئے۔ لاہور کے شہریوں کو صاف پانی تو آجتک نصیب ہوا نہیں لیکن میٹرو میں گھوم رہے ہیں جو دنیا کےتمام ممالک سے زیادہ قیمت پر بنائی گئی ہے، اب تک مرکزی حکومت نے ایک بھی ایسا کام شروع نہیں کیا جو عام آدمی کی بنیادی ضرورت ہے، مثلاً پانی، تعلیم اور صحت۔جو سیاسی نظام اس وقت ملک میں رایج ہے یہ ایک جابرانہ نظام ہے جس میں آبادی کی اکثریت بنیادی سہولتوں سے محروم رہتی ہے۔ موجودہ حالات میں کتنے ایسے افراد ہیں جو دو وقت کی روٹی کمانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتے ہیں اور ان کے علاج معالجے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکتے ہیں۔ نچلے درجے کا سرکاری ملازم جب تک اضافی کام دھندہ یا اضافی ملازمت نہ کرے اپنے معاشی مسائل حل نہیں کرسکتا جبکہ نجی شعبہ میں کام کرنے والوں کی انتہائی کم آمدنی میں تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
بے روزگاروں کے مسائل تو الگ ہیں ان بے چاروں کے پاس تو آمدنی کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہوتا۔ کرپشن پورئے ملک میں ایک کینسر کی طرح پھیل چکا ہے، الیکشن سے پہلےعوام کو کہا گیا تھا کہ کشکول توڑ دینگے، توڑتے تو کیا کشکول کا سائز بڑاکردیا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں نواز شریف کی حکومت نے پانچ ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لے کر پوری قوم کو گروی رکھ دیا گیا ہے، آج ہر پاکستانی تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار روپے کا مقروض ہے۔ قرض ادا کرنے کے لیےآئی ایم ایف کے حکم پر بجلی اور گیس مہنگی کردی جاتی ہے، اور غریب عوام اس قرضے کو ادا کرتے ہیں۔
مقروض اور غربت کے مارئے ہوئے عوام کو جب قومی اسمبلی کے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الائونسز میں اضافے کی خبر ملتی ہے، تو وہ کیسا محسوس کرتے ہیں ، اس سے پارلیمینٹ میں موجوداشرافیہ کو کوئی غرض نہیں ، جس کا ثبوت یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں رپورٹ پیش کرنے والے حکمراں جماعت کے محمود بشیر ورک نے بی بی سی کو بتایا کہ جس وقت ایوان میں تنخواہوں میں اضافے کی قرارداد پیش کی گئی تو ایوان میں موجود دو تہائی اکثریت نے اتنی اونچی آواز میں اس قرارداد کی تائید کی کہ اتنی شائد کسی آئینی ترمیم کے پاس ہونے کے سلسلے میں اپنی آواز بلند نہ کی ہو۔ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے ملک بھر کے عوام میں مایوسی پھیلی ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ گنا ہ کبیر ہ نہیں، انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کی تنخواہوں میں اضافہ محض حکو مت پر تہمت ہے کیونکہ یہ اضافہ حکومت نے ہرگز نہیں کیا بلکہ اراکین پارلیمنٹ نے اس پر پارلیمنٹ میں اتفاق کیا ہے۔
Raza Rabbani
سینیٹ اجلاس میں ایک حکومتی رکن نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی سینیٹرز کی تنخواہوں میں اضافے کا بل لانا چاہئے، جس پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل مناسب نہیں ہے، ان اراکین کو عوام کی خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے نہ کہ اپنی تنخواہیں بڑھانے کے لیے چیئرمین سینیٹ رضاربانی کا کہنا تھا کہ میں سینیٹرزکی تنخواہوں میں اضافے کوناجائزمطالبہ سمجھتا ہوں۔متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ ملک و قوم کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ مستردکرتے ہیں اور ملک کے منتخب ایوان کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ سے عوام میں منفی تاثر پیدا ہوا ہے ۔
اس رپورٹ میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہ اور مراعات کا تقابلی جائزہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے اراکین کے ساتھ ساتھ چین، بھارت، برطانیہ، بنگلہ دیش، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، امریکا اور سوئٹزر لینڈ کی پارلیمنٹ کے اراکین کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔یہاں میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے اپنے ارکان قومی اسمبلی سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا انہوں نے کبھی پاکستان کے عام آدمی کی آمدنی کا تقابلی جائزہ مندرجہ بالا ممالک کے عام آدمی کی آمدنی سے کیا، اگر وہ ایسا کرتے تو شاید بقول پرویز رشید کے یہ بھی کوئی گناہ کبیرہ نہ ہوتا۔
ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے پانی اور بجلی کے بحران سے نجات اورعام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانےکی بجائے صرف اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ قومی اسمبلی سے اس رپورٹ کی منظوری کے بعدعام پاکستانی عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے ارکان اسمبلی صرف اپنے مفاد ات کا خیال رکھتے ہیں، انہیں عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔