اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے وکیل نے کہا ہے کہ مقدمے میں اس وقت کے ارکانِ اسمبلی سمیت سروسز چیفس اور ججوں کو بھی شریکِ جرم کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے موکل کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاد کے بعد کسی نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان افراد کو بھی شریک جرم کر کے تفتیش کی جائے۔
انھوں نے کہا ملک میں ایمرجنسی لگانے کا حکم نامہ چاروں گورنروں اور وزرائے اعلیٰ سمیت متعقلہ حکام کو بھجوایا گیا تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا۔ خیال رہے کہ سابق فوجی صدر نے تین نومبر سنہ 2007 کو ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر گھروں میں نظر بند کردیا تھا۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے بدھ کو اس مقدمے کی سماعت کی۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے وفاقی کابینہ کے مشورے پر ملک میں ایمرجنسی لگائی تاہم حکومت نے اس کا ریکارڈ کہیں غائب کر دیا ہے۔ پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ چھ نومبر سنہ 2007 کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں کسی نے بھی عبوری آئینی حکم نامے یعنی پی سی او کی مخالفت نہیں کی تھی جب کہ اسی روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں تین نومبر کے اقدام کے حق میں قرارداد بھی منظور کی گئی تھی۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو ملک میں ایمرجنسی کا مشورہ دینے والے اُس وقت کے وفاقی وزیر آج بھی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے 27 نومبر 2007 کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیا تھا اور انھوں نے ملک میں ایمرجنسی کے خاتمے کا اعلان بطور صدر کیا تھا جب کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بطور آرمی چیف اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔
پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں 20 جولائی 2007 سے تین نومبر سنہ 2007 تک ان کے موکل سے ملاقات کرنے والوں کی فہرست بھی فراہم کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت کے صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف سے ملاقات کرنے والوں میں جج صاحبان بھی شامل تھے تاہم وہ عدالتی وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا نام نہیں لے رہے۔ پرویز مشرف کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جب کہ اس مقدمے کے چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ پانچ جون کو جوابی دلائل دیں گے۔