ہماری یادداشت ہماری شخصیت کی بنیاد ہے۔ تاہم کبھی کبھار یہ ہم سے کھیل بھی کھیلتی ہے اور ہم کئی چیزیں بھول جاتے ہیں اور ہمارا قوت حافظہ ہمیں دھوکا دے دیتا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے؟
ہمارا حافظہ: معلومات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ، جو ایک رواں مشین کی طرح کام کرتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار اس مشین میں رکاوٹ بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم اُس معلومات تک پہنچ ہی نہیں پاتے، جو ہمیں فوری طور پر درکار ہوتی ہیں۔ پھر وہ چیزیں ذہن میں آتی ہیں، جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
ان میں کچھ کو ہم دماغ سے نکال نہیں پاتے۔ یہ وہ تین طریقے ہیں، جن کے ذریعے ہمارا حافظہ عام طور پر ہم سےکھیلتا ہے۔
سب سے پہلے، ‘ منہ کی بات‘
اس کا تجربہ تو ہم سب کر چکے ہیں۔ اس اداکار کو ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن اس کا نام کیا ہے؟ کبھی کبھی کوئی نام ہماری زبان پر تو ہوتا ہے مگر ذہن میں نہیں آتا۔ یہ سب کچھ دماغ کے اوپری حصے میں ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کی یادداشت ذہن کے مختلف حصوں میں محفوظ ہوتی ہے۔
ظاہری صورت دماغ کے بصری مرکز میں
آواز سماعت کے مرکز میں
اور نام کے ہجے لسانی مرکز میں
نام کو یاد رکھنے کے لیے، دماغ کو ان تمام خصوصیات کو تلاش کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے سے جوڑنا ہوتا ہے۔ اور اسی موقع پر دماغ تھوڑا سا الجھ بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک جیسے ناموں کو بہت جلدی میں یاد کیا جائے۔ تو یہ انتشار کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ بہتر ہے کہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچا جائے۔ تو یہ رکاوٹ دور ہو جائے گی اور جس نام کو یاد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کچھ وقفے کے بعد ذہن میں آجائے گا۔
ترکیب نمبر دو: ياد کی مہک
کبھی کبھار بہت سی یادیں اچانک ہی ہمارے ذہن میں آ جاتی ہیں۔ یہ کونسی خوشبو ہے؟ ایک منٹ! کیا نام تھا؟ اور پھر اچانک بہت ہی بن بلائی یادیں ذہن میں اکھٹی ہو جاتی ہیں۔
مگر ایسا کیوں؟
اسے سمجھنا مشکل نہیں۔ سونگھنے کی وہ واحد حس ہے، جو دماغ کے جذباتی مرکز سے براہ راست منسلک ہوتی ہے۔ اسے ‘آمگُڈالا‘ کہتے ہیں۔ ‘ہپّو کیمپس‘سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے، یہ دماغ کا وہ حصہ ہے، جہاں یادیں وجود میں آتی ہیں۔ خوشبو اور ان سے جڑی یادیں، اسی وجہ سے یہ ہمارے حافظے میں بہت اچھی طرح سے محفوظ ہوتی ہیں۔
نمبر تین: بار بار ذہن میں آنے والی بات
اگر کوئی یاد ہمارے ذہن سے نکل ہی نہ رہی ہو تو یہ چیز بہت یہ بے چین کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی مخصوص گیت۔ اکثر اس وقت کوئی دلکش دھن ہمارے ذہن میں آتی ہے، جب ہم کوئی عام کام کر رہے ہوں۔ اس موقع پر ہماری ورکنگ میموری میں کچھ جگہ بچی ہوتی ہے۔
خود کو بور ہونے سے بچانے کے لیے دماغ اپنی آرکائیو میں چیزیں تلاش کرتا ہے۔ ایسے میں اسے کوئی ایسا گیت مل جاتا ہے، جو ہمیں پسند ہو یا سخت نا پسند۔ بالکل ایک ریکارڈ پلیئر کی طرح ہمارا دماغ بھی اس گیت کو بجانے لگتا ہے اور ہم اسے اپنے ذہن میں سنتے ہیں۔ اس طرح ہمار ذہن متحرک ہوتے ہوئے ہمیں گنگنانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس موقع پر ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ آپ کی گائیکی آپ کو اندرونی طور پر گیت سننے کی جانب لے جاتی ہے۔ اس طرح آپ مزید گنگنانے لگتے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟
محققین تجویز کرتے ہیں کہ اس گیت کو ایک مرتبہ پورا سنا جائے۔ اور پھر؟ پھر اس یاد کو اپنی ذہن کی آرکائیو میں سب سے نیچے دفن کر دیا جائے۔