تحریر: محمداعظم عظیم اعظم فینلن کا قول ہے کہ” میں اپنی مادر وطن کو اپنے خاندان سے زیادہ چاہتا ہوں لیکن نسل انسانی کے لئے میری محبت اپنی مادر وطن سے بھی زیادہ شدید ہے اور اسی طرح اہل علم و فن کا کہناہے کہ آدمی پیدا ہوتا ہے اور انسان تہذیبی عمل سے بنتا ہے، دنیا کے جن ممالک اور اِن کے معاشروں میں احساسِ محرومی یا غرورکی سطح جس قدرکم ہوگی ان ممالک کے معاشرے انسانیت سے اسی قدر قریب ہوں گے اور جن ممالک کے معاشرو ں میں یہ سب کچھ اُلٹ ہوں گے اُن ممالک کے معاشروں میں عدم توازن پیدا ہوگااور وہ ہمیشہ بگاڑ کا ہی شکاررہیں گے۔ یوں یہ واضح ہواکہ دنیا جن ممالک کے معاشروں میں مادہ پرستی کا عنصرغالب ہو گا یقیناان ممالک اور معاشروں میں موجود ایک طبقے میں غروراور دوسرے استحصالی طبقے میں احساس محرومی کا پیداہونالازمی ہوگا ایسے میں اہلِ دانش کا خیال ہے کہ جب دنیاکے مُلکوں کے معاشروں اور تہذیبوں میں ایسی کیفیات پیداہوں تو اِنہیں کنٹرول کرنے میں سیاست سے کام لیاجائے
سیاست کا وسیع و عریض میدان ہی ایسے مُلکوں معاشروں اور تہذیبوں کی اِنسانیت کی خدمات میں اپنامثبت اور تعمیری کرداراداکرتاہے مگر اِس کے لئے شرط صرف یہ ہے کہ سیاست کے میدان میںپنچہ آزمائی کرنے والے اپنی نیک نامی اور خلوص کو ملحوظِ خاطررکھیں اور اپنے قول وکردار اورعمل سے یہ ثابت کریں کہ اِنہیں مُلکوں معاشرو ں اور تہذیبوں کو بگاڑسے بچاناہے ..اور اپنی کوششوں سے اپنی تہذیب اپنے ملک اور اپنے معاشرے کو اُدھرلے جاناہے جہاں نہ مُلکوں اور معاشروں اور تہذیبوں کے اِنسانوں میں مادہ پرستی کا عنصرغالب ہوگا اور نہ کسی طبقے میں اِنسانوں کو بھٹکادینے والاغروروتکبرپیداہوگا اور نہ ہی کسی محروم طبقے میں احساس محرومی کا لاوابھڑکے گا۔ جبکہ یہاں یہ امرمسلمہ ہے کہ آج مادہ پرستی کی وباءدنیا کے ملکوں معاشروں تہذیبوں اور سرحدوں کی پابندیوں سے آزاد ہوکر ہر اِنسان کے دماغ و دل میں کچھ اِس طرح سے پھیل چکی ہے کہ اَب اِس سے چھٹکارہ پانامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہو گیا ہے۔
بہرکیف …!! اِس سے انکار نہیں کہ آج اچھے بھلے اِنسان بھی اِس وباءمیں کچھ اِس طرح مبتلاہیں کہ جنہیں دیکھ کر اِس احساس میں شدت آجاتی ہے کہ ایسے لوگ جن کے بارے میں کبھی گمان بھی نہیں کیاجاسکتاتھاکہ یہ لوگ بھی مادہ پرستی کے حرص وہوس میں اِس طرح مبتلاہوجائیں گے کہ جب دنیاکے سامنے اِن کی حقیقت کھلے گی اور اِن کے چہرے سامنے آئیں گے تو اِن کا وقار مجروح ہوجائے گااور دنیاکے مُلکوں معاشروں اور تہذیبوں کے سامنے وہ یوں بے نقاب ہوجائیں گے کہ اَب یہ کسی نقاب کے اوٹ میں چھپنابھی پائیں تو نہ چھپ سکیںگے اِس میں کوئی شک نہیں کہ آج اِس پُرآشوب دورمیں اِنسان ہی اِنسان کا اصلی دُشمن بناہواہے اور اِنسانوں کے معاشروں میں موجود کچھ حیوان خصلت اِنسان نماحیوانوں نے اپنی حیوانگی سے شیطانی حربوں اورخو نخوارحیوانوں کی حیوانگی کے معیار کو بھی چکناچورکرکے رکھ دیاہے
Societies
یعنی یہ کہ آج دنیا کے ملکوں کے معاشروں اور اِن معاشروں کی تہذیبوں میں اِنسان نے اپنی حیوانگی سے خونخوارجانوں کو بھی کوسوں میل پیچھے چھوڑدیاہے الغرض یہ کہ آج کے اِس پُرآشوب… مگر مادہ پرستانہ دورمیں اِنسانوں نے اِنسانیت کا گلا گھونٹا اور خود کو حیوان کے رنگ و روپ میں کچھ اِس طرح ڈھال کر پیش کیاہے کہ اِن کی حیوانگی کے سامنے حیوانگی اور درندگی بھی شرم محسوس کرنے لگی ہوگی اِس پر سونے پہ سُہاگہ یہ کہ اِنسانوں کے معاشروں اور تہذیبوں میں حیوان بن جانے والے عناصرخودکو حیوان بن کر بھی اِنسان سے افضل تصورکرتے ہیں اور معصوم اِنسانوں کے مقدس خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کے بعد بھی مُلکوں معاشروں اور تہذیبوں میں دندناتے پھرتے ہیں اورقانونی تقاضوں اور قانونی پابندی کو اپنے پیروںتلے مسل کرحکومتی رِٹ کو چیلنج کرتے ہیں اور یہ اپنی درندگی کی بنیادپر کسی دہشت گردانہ کارروائی کے بعد وقتی طورپر خودکوقانونی گرفت سے آزادجان کر ….پھر اپنی اگلی کسی دہشت گردی اور قتل وغارت گری کی گھناونی منصوبہ بندی کے لئے پلاننگ کرتے ہیں….مگریہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایک نہ ایک دن قانون کی گرفت میں ضرورآئیں گے
یہ تو قانونِ قدرت ہے کہ ناحق خونِ اِنسان بہانے والاکسی نہ کسی روز اپنے انجام کو ضرورپہنچے گا .. کسی بھی مُلک و معاشرے اور تہذیب میں موجود ایسے حیوان و شیطان صفت اِنسان کسی بھی معافی کے لائق نہیں ہیں ایسے بظاہر اِنسان نما حیوانوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑاجائے ….اوراِنہیں نشانِ عبرت بنانے کے لئے چوراہے پر لٹکا کر پھانسی دینے سمیت ایسی سخت ترین سزا ئیں دی جائیں کہ اِن کی آنے والی نسلیں …بھی تاقیامت اِن پر لعنت بھیجتی رہے ہیں۔ بہرحال …!! آج دنیاکی آبادی اپنے ہی پیداکردہ مسائل او رفتنوں میں دھنستی چلی جارہی ہے،یہ جانتی ہوئے بھی کہ اِس سارے عمل کی یہ خودہی ذمہ دارہے مگر افسوس ہے کہ ایسے میں کسی کو بھی اپنے کئے پرپچھتاوانہیں ہے موجودہ ماحول میں تباہی و بربادی کی کیفیات سے دوچاردنیاکی آبادی کا ایک بڑاڈھیٹ حصہ ایسابھی ہے جو اپنے ہر بُرے رویئے کا ذمہ دارخود کو تو سمجھتاہے
مگر افسوس ہے کہ اِس کے باوجود بھی یہ اِس سے نکلنے کی کئی کوشش نہیں کررہاہے ایساکیوں اور کس لئے ہیں…؟؟ آج شاید اِس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے دنیاکے بہت سے مُلکوں ، معاشروں اور بھات بھات کی تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی بہت بڑی آبادی خود ہی اپنی تباہی اور بربادی کا ذمہ دارہے اور اسی پچھتاو ¿ے میں مرجاناچاہتی ہے مگر اپنی اِس کیفیت سے نکلنانہیں چاہتی ہے ایسے میں لازم ہے کہ معاشرے اور تہذیب میںموجودا چھے بھلے اِنسانوں کو اپنی کوشش کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کوئی اچھا بھلا اِنسان …کسی دوسرے اچھے بھلے اِنسان کو مادہ پرستی ، خودغرضی اور حرص وہوس کی بے راہ روی کے جہنم سے بچالے۔