ذہنی آزادی کا تصور ذہن میں ابھرتے ہی سب سے پہلا خیال جو آتا ہے وہ ہے اخلاقی انحطاط،نسلِ نو کی بے راہ روی، جدیدیت اور ایسے اعمال قبیہ جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتے ہوں۔فی زمانہ سمجھا بھی یہی جاتا ہے کہ جو نوجوان قدامت پرستی کو ناپسند کرتے ہوئے اپنی زندگی جدید خطوط پر استوار کرنے میں مصروفِ عمل ہیں انہیں مادر پدر آزاد خیال کر لیا جاتا ہے،یقینا غیر اخلاقی معیارات رو راجات کے حامل افراد کبھی بھی قوم نجیب کے افراد نہیں ہو سکتے۔اخلاق حسنہ،ہمدردی،رواداری جیسے سنہری اصول بھلے قدامت پسند کہلاتے ہوں مثالی و فلاحی معاشرہ انہیں اصولوں پر استوار کیا جا تا ہے۔ایسے معاشرہ کی تشکیل کے مبادیات اصول میں سب سے مضبوط اور بنیادی اصول مبنی بر صداقت ہوتے ہیں۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سچ کہنے والے اور حق و صداقت کی صدائیں بلند کرنے والے اب ناپید ہیں،ہر سُو منافقت ،جھوٹ کا بول بالا ہے۔
منافق ہوتا تو ہجوم ہوتا میرے ساتھ مخلص ہوں اسی لئے تو تنہا ہوں
اسی پس منظر میںامام غزالی نے بالکل بجا فرمایا تھا کہ”آج کل کے لوگ میری باتوں کو برداشت نہیں کر سکیں گے کیونکہ اس زمانے میں جو شخص سچ کہتا ہے انسان تو درکنار درودیوار بھی اس کے دشمن بن جاتے ہیں”قولِ سچ کا ڈر ہی دراصل ہمارے معاشرہ کا تسمہ پا بن کر ہمارے معاشرہ کو آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے کیونکہ سچ بولنے والا نابینوں کے شہر میں آئینہ بیچنے والا دکھائی دیتا ہے،منافقت ،جھوٹ اور لاف زنی کے اس معاشرہ میں کھرا،سچا اور حق گو مس فٹ ہے۔مصلحت اور منافقت کو فی زمانہ جائز قرار دے کر حق گو پر آوازیں کسی جا رہی ہیں۔سچ بات کہنا اور حق گوئی کا اظہار نہ کرنا دراصل ایک ڈر ہے جس نے فرد کو اندر سے اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ ہر بات کے اظہار سے خائف ہے۔کہ اگر سچ بول دیا تو دنیا کیا کہے گی،رشتہ دار خلاف ہو جائیں گے،دوستی جاتی رہے گی،باس کی ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں آجائونگا،بچے اور بیوی میرے خلاف محاذ آرائی قائم کر لیں گے۔یہی سوچ اصل میں فرد کے اندر ڈر، خوف، مصلحت اور جھوٹ بولنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔اسی خوف اور عدم تحفظ نے فرد کو بزدل اور ناکارہ بنا دیا ہے۔کہ وہ چاہتے ہوئے بھی حق وصداقت کے علم کو بلند نہیں کر سکتا۔
جب افراد میں ایسی سوچ پرورش پا رہی ہوگی تو قومی کلچر کی تشکیل کیسے ممکن یا پنپ سکے گی۔یہ طرز عمل انسان کو انفرادی فوائد کے حصول کے چکروں میں ڈال دیتا ہے اور اجتماعیت سے انسان کو کنارہ کشی اختیار کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔لہذاافراد کوحق وصداقت کے اصولوں پر کاربند کرنے کے لئے معاشرہ میں موجود اساتذہ،علما،فلاسفر،اور مصلح کو اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہوئے یہ شعور بیدار کرنا ہے کہ ذہنی آزادی سے مرادکبھی بھی جدیدیت کی تشکیل،بے راہ روی یا اخلاقی گراوٹ نہیں بلکہ سچ کہنے کی جرات کا نام ذہنی آزادی ہے اور ذہنی آزادی کا بنیادی کام ہی یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر سے ڈر اور خوف کو اس طور جڑ نہ پکڑنے دے کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں مصلحت کو ہی سچ خیال کرنے لگ جائے بلکہ انہیں یہ بتانا ہے کہ مصلحت کبھی بھی سچ نہیں ہو سکتی ہمیشہ سے اس کی ضد ہے اور رہے گی۔
ٰٰفی زمانہ ذہنی آزادی کے مفہوم اور قدامت پسند اقوام میں سچ کی اہمیت کو ہم اس طرح واضح کر سکتے ہیںکہ جیسے کسی معاشرہ میں صرف تعزیرہو تعظیم نہ ہو ،کیونکہ تعظیم کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے پر ہی تعزیر کی طرف جایا جاتا ہے۔آج کل بھی اگر ہم سوشل میڈیا پر دیکھیں تو کسی بھی غیر اخلاقی معاشرتی بگاڑ پر ہر کس و ناکس تعزیر اور حد لاگو کرنے پر تلا ہوا ملتا ہے،ایک طواف یا پیشہ ور خاتون کے ساتھ کسی کے ناجائز تعلقات پر طرح طرح کی تعزیرات لگا کر ہر کوئی فیصلہ سنا ڈالتا ہے کہ اسے پھانسی پر لٹکا دو،سنگسار کر دیا جائے،اس کی سزا قتل ہونی چاہئے۔
ذبح کر دو وغیرہ وغیرہ،مگر اس سارے معاملہ میں محرکات کیا تھے،معاشرتی عوامل کیا تھے،خاندانی پس منظر اور غربت و افلاس کی کیا پوزیشن تھی ،ایک عورت اپنی عزت سر بازار نیلام کرنے پہ کیوں مجبور ہوئی۔ابنِ آدم اپنی ہوس مٹا کر چند روپے اس کے ہاتھ میں تھما نے کو تو تیار ہو گیا مگر اس کی عصمت اور چادر چاردیواری کی حفاظت کے لئے اس کی مدد کرنے سے کیوں گریز پا ہے۔مشکل اور برے حالات ہر کسی پر آسکتے ہیں اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے جائز بنا کر اس کا حق کیوں ادا نہیں کر دیا جاتا۔ان سب عوامل کی جانکاری کے بعد اگر تعزیر جا حکم صادر ہوتا ہے تو عمل شروع کر دیا جائے وگرنہ تعزیر سے قبل اگر تعظیم کا سبق پڑھ لیا جائے اور اسے مضبوطی سے تھام لیا جائے تو ہمیں خود سے وکیل اور جج بننے کی نوبت کبھی نہیں آئے گی۔بلکہ تعظیم اور تقدس سے مثالی معاشرہ کی تشکیل ہو پائے گی جو عین فطرت بھی ہے اور عین اسلام بھی،لہذا ہمیں بحثیت انفراد و اجتماع تعظیم کے عمل کی آبیاری کرنی ہے تاکہ خوش حال معاشرہ کی تشکیل ممکن سکے۔