اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی اعلی ترین عدالت نے ذہنی مرض میں مبتلا مجرم امداد علی کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
اس شخص کو 2002ء میں وہاڑی کی ایک عدالت نے ایک امام مسجد کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی لیکن اس کے وکلا نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تھی کہ امداد علی ذہنی بیماری “شیزوفرینیا” کا شکار ہے لہذا اس کی سزائے موت ختم کر دی جائے۔
تاہم رواں ماہ ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیزوفرینیا مستقل ذہنی بیماری نہیں اور اس بنا پر سزا ختم نہیں کی جا سکتی۔
عدالتی فیصلے کے بعد مجرم کے ڈیٹھ وارنٹ جاری کر دیے گئے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ اسے دو نومبر کو تختہ دار پر لٹکایا جا سکتا ہے۔
لیکن امداد علی کی اہلیہ نے سپریم کورٹ میں گزشتہ ہفتے نظرثانی ایک درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ اسے فوری طور پر سنا جائے۔
پیر کو عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے اس درخواست سماعت کرتے ہوئے امداد علی کی سزائے موت کو موخر کر دیا اور اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پراسیکیوٹر پنجاب کو نوٹس جاری کر دیے۔ درخواست کی سماعت آئندہ ماہ کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔
امداد علی کی سزائے موت کے خلاف آواز بلند کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم “جسٹس پراجیکٹ پاکستان” کا کہنا ہے کہ جیل کے ڈاکٹروں کی رپورٹ سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجرم شدید بیماری کا شکار ہے اور ایک ایسے شخص کو سزائے موت دینا مناسب نہیں ہو گا جو خود اپنے، اپنے جرم اور سزا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔