ہمارا تذکرہ چھوڑو ہم کسی کو کچھ نہیں کہتے ہمیں صرف اپنے اندر کی ویرانی ستاتی ہے نہ ہمیں مطلب کسی کی راجدھانی سے ہمیں تو اپنی آنکھوں کی ویرانی ستاتی ہے شکر ہے کوئی بھی بھول ہم سے ہونے نہیں پائی ہمیں بس تیری فطرت کی اکڑ خانی ستاتی ہے چلو کچھ دیر کو ہم یہ لہجہ بھول جاتے ہیں ہمیں پھر بھی آنسووں کی روانی ستاتی ہے آخر کب تلک ہم کو خوابوں سے بہلائو گے ہمیں تو اب ان خوابوں کی ویرانی ستاتی ہے