تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل ضلع میانوالی شعبان المعظم کی پندرہویں رات کو “شب براءت کہا جاتا ہے۔شب کے معنی رات اوربراء ت کے معنی چھٹکارے کے ہیں اس رات میں اللہ رب العزت قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتا ہے۔ عرب قبائل میں سے سب سے زیادہ بکریاں پالنے والا قبیلہ قبیلہ بنی قلب تھا اس رات اللہ رب العزت کی اپنی مخلوق پر خصوصی رحمتیں ہوتی ہیں اللہ رب العزت کی رحمت دوطرح کی ہے ایک عام اور دوسری خاص اللہ تعالیٰ کی رحمت عام! جو ہر خاص و عام کے لئے ہے۔
خواہ وہ مسلمان ہویاکہ کافر، یہودی ہو یا کہ نصرانی، حیوان ہویاکہ پتھرآپ خوداندازہ کریں کہ جب بارش ہوتی ہے توہرایک کے کھیت چاہے امیرکاہویاکہ غریب کا،نیک کاہویاکہ بُرے کا سب میں پڑتی ہے یعنی وہ ہرایک کے لئے یکساں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے حالات کے مطابق مانگتاہے ۔اللہ پاک اسے بھی عنایت فرماتاہے۔شب براء ت ایک ایسی رات ہے جس میں اللہ پاک دونوں طرح کی رحمتوں کانزول فرماتاہے جسکا ہرذی روح کوفائدہ پہنچتاہے۔پندرہ شعبان کی رات کتنی نازک رات ہے۔ انسان بعض اوقات غفلت میں پڑارہتاہے اوراسکے بارے میں کچھ کاکچھ ہوچکاہوتاہے اس رات سال بھرمیں ہونے والے تمام امورکائنات،عروج وزوال ، اوبارواقبال،،کامیابی،ناکامی رزق میں وسعت وتنگی موت وحیات اورکارخانہ قدرت کے دوسرے شعبہ جات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔اورفرشتوں کواپنے اپنے کاموں کی تقسیم کردی جاتی ہے۔یوںتوشعبان المعظم کا سارامہینہ برکت والاہے مگراسکی پندرہویں رات بڑی برکت والی ہے اس رات اللہ رب العزت گناہ گاروں کودوزخ کی آگ سے نجات دیتا ہے۔قرآن مجید فرقان حمیدمیں اس رات کو”لیلةمبارکہ”یعنی برکتوں والی رات ،کہا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةٍمُّبٰرَکَةٍ اِنَّاکُنَّامُنْذِ رِیْنَ فِیْھَایُفْرَقُ کُلُُّّ اَمْرٍحَکِیْمٍ اَمْرًامِّنْ عِنْدِنَا اِنَّا کُنَّا مُرْسِِلِیْنَ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّکَ اِنَّہ’ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(سورة الدخان آیت نمبر١تا٦)حم قسم اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میںاتارابے شک ہم ڈرسنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیاجاتاہے ہرحکمت والاکام ہمارے پاس کے حکم سے بے شک ہم بھیجنے والے ہیں تمہارے رب کی طرف سے رحمت بے شک وہی سنتاہے اور جانتا ہے.
آقا علیہ الصلوٰة والسلام کی امت کے لئے اللہ رب العزت کی طرف سے شب براء ت ایک نعمت عظمٰی ہے۔حدیث پاک میں ہے اللہ کے رسولۖ نے شعبان المعظم کی تیرہویں رات کوبارگاہ خداوندی میں اپنی امت کے لئے شفاعت کی درخواست کی توایک تہائی امت کی بخشش قبول ہوئی۔پھرچودھویں رات میں دعاکی تودوتہائی امت کی شفاعت عطاکی گئی۔ پھرپندرہویں رات”شب براء ت”میں دعاکی تو ساری امت کے حق میںشفاعت قبول ہوگئی ہے۔سوائے ان نافرمان بندوں کے جواللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اونٹ کی طرح بدک کربھاگتے ہیں۔یعنی نافرمانی کرکے اللہ سے دوربھاگے۔ (مکاشفة القلوب)ام المومنین سیدتناحضرت عائشة الصدیقة فرماتی ہیں۔کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ۖپورے ماہ شعبان میں روزے رکھتے یہاں تک کہ اسے رمضان المبارک سے ملادیتے۔میں نے عرض کیایارسول اللہۖ ماہ شعبان کے روزے آپ ۖکودوسرے مہینوں کی بہ نسبت زیادہ محبوب وپسندیدہ ہیں؟ توآپ ۖنے ارشادفرمایاہاں اے عائشہ !جوبھی سال بھرمیں فوت ہوتاہے اسکاوقت(وفات) شعبان ہی کے مہینے میں لکھ دیاجاتاہے تویہ بات مجھے محبوب ہے کہ میرے وصال کاوقت اس حال میں لکھاجائے کہ میں اپنے رب کی عبادت اورنیک کام میںمشغول ہوں ایک روایت میں ہے کہ آپۖ نے فرمایااے عائشہ اسی مہینے میں ملک الموت فوت ہونے والوں کے نام لکھ لیتے ہیں تومجھے یہ پسندہے کہ میرانام روزہ کی حالت میں لکھاجائے۔(درمنثور) حضرت علاء بن حارث سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشة الصدیقہ نے فرمایاکہ رسول اللہۖ رات کواٹھے اورنمازپڑھنے لگے اوراتنے لمبے سجدے کیے کہ مجھے یہ خیال ہواکہ آپۖ کی وفات ہوگئی ہے۔
میں نے جب یہ معاملہ دیکھاتومیں اٹھی آپۖکے پائوں کے انگوٹھے کوحرکت دی اس میں حرکت ہوئی میں واپس لوٹ آئی جب آپ ۖنے سجدے سے سراٹھایا اورنمازسے فارغ ہوئے توفرمایااے عائشہ!یافرمایااے حمیرائ!کیا تمہارے دل میں یہ سوچ پیداہوگئی کہ اللہ تمہاراخیال نہ کریں گے تومیں نے عرض کیایارسول اللہۖ بخدایسی بات نہیں درحقیقت مجھے یہ خیال ہواکہ شایدآپکی وفات ہوگئی ہے کیونکہ آپ نے سجدے بہت لمبے کیے آپۖ نے فرمایاجانتی بھی ہویہ کیسی رات ہے؟ میں نے عرض کیااللہ اوراسکے رسولۖ ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایایہ شعبان کی پندرہویں رات ہے۔اللہ پاک اس رات اپنے بندوں پرنظرِرحمت فرماتاہے اور بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرمادیتاہے رحم مانگنے والوں پررحم کردیتاہے مگردل میں عنادرکھنے والوں کوان کے حال پرچھوڑدیتاہے۔(بیہقی فی شعب الایمان ) ام المومنین سیدتنا حضرت عائشة الصدیقة سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہۖ نے فرمایاکہ (اے عائشہ )تم جانتی ہوکہ یہ کونسی رات ہے میں نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ نصف شعبان کی رات اسمیں خاص بات کیاہے؟توآپ ۖ نے فرمایااس (رات) سال بھرمیں پیداہونے والے اورمرنے والے لوگوں کی فہرست مرتب کی جاتی ہے اس رات بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اس رات لوگوں کارزق اتاراجاتاہے۔ام المومنین سیدتناحضرت عائشة الصدیقة فرماتی ہیں میںنے عرض کیایارسول اللہ ۖ کیاہرکوئی اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا؟تو سرکارعلیہ الصَّلوٰة والسَّلام نے فرمایا ہاں؟ کوئی شخص ایسانہیں جواللہ کی رحمت کے بغیرجنت میں داخل ہواوریہ کلمات آپۖ نے تین مرتبہ فرمائے میں نے عرض کیااورآپ بھی یارسول اللہۖ ؟ توآپۖ نے اپنا دست مبارک سرپررکھ کرفرمایااورمیں بھی جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت میرے شامل حال نہ ہویہ کلمہ بھی آپۖ نے تین بارفرمایا۔(بحوالہ بیہقی ) حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سال میں جوکام ہوناہے اسے متعلقہ فرشتے کے جوانجام دینے والاہوتاہے اس کے سپرد کردیا جاتا ہے۔
حضرت عثما ن بن محمدبن مغیرہ بن اخنس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایاکہ زمین والوں کی عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لکھ دی جاتی ہیںیہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتاہے اسکے بچے پیداہوتے ہیں حالانکہ اسکانام مُردوں میں داخل ہوچکاہوتاہے۔(تفسیرابنِ کثیر) یہی حدیث ایک اورمضمون کی ساتھ آئی ہے جسکے راوی حضرت ابوہریرہ ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے فرمایاکہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مدت حیات کاختم ہونالکھ دیا جاتاہے یہاں تک کہ آدمی شادی کرتاہے۔ا سکے بعدبچہ پیداہوتاہے حالانکہ اسکانام مرنے والوں میں لکھاجاچکاہوتاہے۔ام المومنین سیدتناحضرت عائشة الصدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ۖ کویہ فرماتے ہوئے سناکہ چارراتوں میں اللہ تعالیٰ رحمت کے دروازے کھول دیتاہے انہی میں سے ایک شعبان کی پندرہویں رات ہے اس رات میں وفات کے اوقات روزیاں اورحج کرنیوالوں کے نام لکھے جاتے ہیں۔(درِمنثور) حضرت راشدبن سعدسے روایت ہے کہ نبی اکرم ۖ نے ارشادفرمایاپندرہ شعبان کواللہ تعالیٰ سال بھرمیں قبض کی جانیوالی روحوں کی فہرست ملک الموت کے حوالے کردیتاہے۔(روح المعانی)حضرت عطاربن یسارفرماتے ہیںکہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے توخداکی طرف سے ایک فہرست ملک الموت کودی جاتی ہے اورحکم دیاجاتاہے کہ ان لوگوں کی روحوں کواس سال قبض کرلیناہے جن کے نام اس فہرست میں شامل ہیں خواہ ان میں سے کوئی باغ کے درخت لگارہاہویاکوئی شادی کررہاہو یا مکان کی تعمیرکررہاہو۔غرض یہ کہ انکانام مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نظام کے اصول بڑے احسن طریقے سے مقررشدہ ہیں اور انکی حکمت اللہ ہی کومعلوم ہے۔دنیامیں انسان ہروقت کسی نہ کسی کام میں لگارہتاہے۔مگراللہ پاک کی بارگاہ میں اس کانام مرنے والوں کی فہرست میںلکھاہوتاہے اللہ پاک یہ نہیں دیکھتاکہ (انسان) کسی بڑے سے بڑے کام میں مصروف ہے۔یہ تواللہ ہی کومعلوم ہے کہ اس کادنیاسے فوت ہوجانے کاسب سے بہتروقت کونساہے۔اس رات کی فضیلت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس رات میں اللہ رب العزت بے شمارلوگوں کے گناہ بخش دیتاہے جوآدمی اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے معافی مانگ لیتاہے اللہ پاک اس کی سب خطائیں معاف کردیتاہے۔اللہ رب العزت کایہ فرمان عبرت نشان ہے کہ “فیغفرلمنیشاء ویعذب من یشائ”تو جسے چاہے گا بخشے گا جسے چاہے عذاب دیگا۔لہذاہم سب کوچاہیے کہ اس رات صدق دل سے اپنے ر ب کی بارگاہ سے توبہ کرلیں اللہ پاک کی طرف سے توبہ کادروازہ ہروقت کھلا رہتا ہے۔
حضرت عثمان بن العاص نبی اکرم ۖ سے روایت کرتے ہیں۔کہ آپۖ نے ارشاد فرمایاجب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والاپکارتاہے کہ کیاکوئی مغفرت کاطالب ہے کہ میں اسکی مغفرت کروں۔کیاکوئی مانگنے والاہے کہ میں اسے عطاکروں اس وقت جوشخص اپنے رب سے جوکچھ مانگتاہے اسے مل جاتاہے لیکن زانیہ اورمشرک کوکچھ بھی نہیں ملتا۔(بیہقی، فی شعب الایمان) اس مقدس رات میں بھی اللہ کی رحمت سے خالی رہنے والاشخص مشرک اورزناخوربھی ہے۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمۖ نے فرمایاجب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تواللہ تعالیٰ سب کی بخشش فرمادیتاہے سوائے مشرک اورکینہ پرورکے(مجمع الزوائدجلد٨صفحہ٦٥) ام المومنین حضرت عائشة الصدیقہ فرماتی ہیںکہ ایک رات میںنے رسول اللہ ۖ کواپنے پاس نہ پایاتومیں آپۖ کی جستجومیں نکلی کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ۖ جنت البقیع میں تشریف فرماہیںآقاعلیہ الصلوة والسلام نے فرمایا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اسکارسولۖ تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے آپنے عرض کیایارسول اللہ ۖ مجھے گمان ہواکہ آپۖ کسی دوسری بیوی کے پاس چلے گئے ہیں۔پھرنبی کریم ۖ نے فرمایابیشک اللہ تبارک وتعالیٰ پندرہ شعبان کی رات آسمان دنیاپر(اپنی شان کے مطابق )جلوہ گرہوتاہے۔اورقبیلہ بنوقلب کی بکریوں کے بالوںکی تعدادسے زیادہ گناہ گاروں کی مغفرت فرماتاہے۔(ترمذی جلدنمبر١صفحہ ١٥٦،ابن ماجہ صفحہ ١٠٠،مسنداحمدجلد٦صفحہ٢٣٨،مشکوٰة ص ٢٧٧)حضرت عبداللہ بن عمر،عمروبن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایاپندرہ شعبان کی رات اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف نظرِ رحمت فرماتے ہوئے سب کی بخشش فرماتاہے سوائے دوآمیو ںکے۔1۔کینہ پرور2۔کسی کوناحق قتل کرنیوالا. قاتل کے بارے میں ارشادباری تعالیٰ ہے۔ترجمہ۔ جوکسی مسلمان کوجان بوجھ کرقتل کرے اس کی سزاجہنم ہے اورمدتوں اس میں رہے اللہ پاک نے اس پر غضب کیااورلعنت کی اوراس کے لئے بڑاعذاب تیارکرکھا ہے ۔( النساء آیت نمبر٩٣ )قاتل کے بارے میں حدیث پاک میں آیاہے کہ قیامت کی دن مقتول (جوقتل ہوگیاتھا)اللہ کی بارگاہ میں اس طرح آئے گاکہ قاتل کے سرکااگلا حصہ مقتول کے ہاتھ میں ہوگااوریہ کہتاہواآئے گا کہ یا اللہ اس نے مجھے قتل کیا تھا۔
وہ اپنامقدمہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کریگا۔(مشکوٰة) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کی نبی کریم ۖ نے ارشادفرمایاکہ میرے پاس جبرائیل امین شعبان کی پندرہویں رات کو تشریف لائے اورمجھ سے فرمایا اے صاحب مدحِ کثیر!اپناسرآسمان کی طرف اٹھائیے میں نے پوچھایہ کونسی رات ہے؟جبرائیل امین نے فرمایایا رسول اللہ ۖ یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے تین سودروازے کھول دیتاہے کافراورمشرک کے سواسب کوبخش دیتاہے مگریہ کہ وہ جادوگر ہویاکاہن،شراب کاعادی ہویاسودکاعادی ہو یازناکاعادی ہوان مجرموں کواپنے اپنے گناہ سے توبہ کرنے سے پہلے نہیں بخشتا(یعنی توبہ کرلیں توتوبہ قبول کرتاہے)پھررات کاجب چوتھائی حصہ ہواتو جبرائیل میرے پاس آئے اورعرض کیااے صاحب مدح عظیم!اپناسر اٹھائیے سرکارۖ نے اپناسراٹھاکردیکھاکہ جنت کے سب دروازے کھلے ہیںپہلے دروازے پرایک فرشتہ ندادے رہاہے کہ اس رات میں رکو ع کرنے والوںکوبشارت ہو،دوسرے دروازے پرایک فرشتہ آوازدیتاہے۔اس رات میں سجدہ کرنیوالوں کوبشارت ہو،تیسرے دروازے پرایک فرشتہ آوازدیتا ہے کہ اس رات میں دعاکرنیوالوں کے لئے بھلائی ہو،چوتھے دروازے پرایک فرشتہ آوازدیتاہے کہ اس رات میں ذکرکرنیوالوں کومبارک ہو۔ پانچویں دروازے پرایک فرشتہ آوازدیتاہے کہ اس رات میں خداکے ڈرسے رونے والوں کومبارک ہو،جنت کے چھٹے دروازے پرایک فرشتہ آوازدیتاہے کہ اس رات تمام مسلمانوںپرخداکی رحمت ہو۔ساتویں دروازے پرایک فرشتہ پکارتاہے کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والاکہ اسے بخش دیاجائے۔آٹھویں دروازے پرایک فرشتہ پکارتاہے کہ ہے کوئی کچھ مانگنے والاکہ اسے منہ مانگی مراددی جائے۔میں نے پوچھااے جبرائیل یہ دروازے کب تک کھلے رہتے ہیں!توانہوں نے فرمایارات کے شروع ہونے سے لیکر صبح کے نمودارہونے تک کھلے رہتے ہیںپھر فرمایااے حمدوالے!اس رات میں اللہ تعالیٰ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بال کی تعدادمیںلوگوںکوجہنم سے آزادکرتاہے۔(غنیہ الطالبین)اس حدیث مبارک میں جن لوگوں کاذکرآیاہے کہ یہ لوگ اللہ کی رحمت اوربخشش سے محروم رہتے ہیں ۔1۔مشرک!جوجوخدائے وحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرے کواس کاشریک سمجھے اوراللہ تعالیٰ کے علاوہ اسکومستحق عبادت سمجھے۔2۔ ماںباپ کانافرمان کوبھی اللہ پاک نہیں بخشتا.3۔کاہن جوآئندہ کی باتیں اٹک پچّوسے بتائے یابتانے کامدعی ہو۔4۔نجومی جو غیب کی خبردے عالم غیب ہونے کادعوٰی کرے 5۔جادوگر یہ لوگوں کوایذادیتاہے اورزمین میں فساد مچاتا ہے۔
اسکی بخشش تب تک نہ ہوگی جب تک توبہ نہ کرے۔6۔فال نکالنے والے 7۔سنت کے خلاف عمل کرنیوالے.8۔قاتل جوکسی محترم یامعصوم جان کومارڈالے۔9۔ جلاد10 ۔قرابت داروں سے رشتہ کاٹنے والے11۔کینہ پرور جسکاسینہ کسی مسلمان سے کینہ کی آلودگی میں ملوث ہو۔12۔سودکاعادی جس نے تین بارسودلیاہو 13۔سوددینے کاعادی14۔ناچ گانیوالے15۔زنا کے عادی مردہوں یاعورت 16۔ شراب کاعادی،ان بدنصیبوں کوچاہیے کہ بارگاہ لم یزل سے صدق دل سے توبہ کرلیں اورآئندہ کوئی گناہ نہ کریں ۔ضروراللہ پاک کوبخشنے والامہربان پائیں گے۔ حضرت ابوثعلبہ خشنی نبی کریم ۖسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ۖ نے فرمایاجب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تواللہ پاک اپنی مخلوق پرنظررحمت ڈال کرمسلمانوں کی بخشش فرمادیتاہے اورکافروں کومہلت دیتے ہیں اورکینہ پرورو ںکوانکے کینہ کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں تاوقتیکہ کہ وہ کینہ پروری چھوڑدیں۔(بیہقی، فی شعب الایمان)اللہ رب العزت کی صفت رحمان اوررحیم ہے اس لئے پندرہ شعبان کی رات اپنے بندوںخصوصاََاہل ایمان پراپنی رحمت نازل فرماتاہے ان کے گناہوںکوبخش دیتاہے یادرہے گناہوںسے مغفرت وبخشش اسکی ہوتی ہے جواپنے گناہ پرنادم ہوکراللہ کی بارگاہ سے توبہ کرلیتاہے اوراپنی اصلاح کر لیتا ہے یعنی اپنے اعمال کوٹھیک کر لیتا ہے۔
توبہ کادروازہ موت سے قبل ہروقت کھلاہے جوآدمی دروازہ کھٹکالیتاہے وہ کچھ نہ کچھ پالیتاہے۔جونہ کھٹکائے گاوہ ناکام ہوجائے گا۔ْحضرت معاذبن جبل نبی کریم ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ۖ نے ارشاد فرمایااللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات اپنی مخلو ق کی طرف اپنی نظررحمت فرما کر تمام مخلوق کی سوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کے بخشش فرما دیتا ہے۔(بیہقی،طبرانی) اس رات کی فضیلت کی سب سے بڑی ایک اور وجہ قبول شفاعت ہے یعنی جوآدمی اس رات میں اللہ پاک کی عبادت کریگا اور اللہ کوراضی کرلیگا تو اس آدمی کوبروزقیامت آقاۖ کی شفاعت نصیب ہوگی شفاعت کے متعلق آقاۖ کے ارشادات مبارک ہیں۔حضرت جابر سے مروی ہے کہ آقائے دوجہاںۖنے ارشادفرمایا” اورمجھے کچھ ایسے فضائل ملے ہیں جومجھ سے پہلے کسی نبی کونہیں ملے اور مجھے شفاعت دی گئی.(بخاری،مسلم)حضرت عبداللہ بن عمر اورحضرت ابوموسیٰ اشعریسے روایت ہے کہ آقاۖ نے ارشاد فرمایا “اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیاردیاکہ یاتوآپ شفاعت لے لو۔یایہ کہ تمہاری آدھی امت جنت میں جائے۔ میں نے شفاعت لی کہ وہ زیادہ عام اورزیادہ کام آنے والی ہے کیاتم یہ سمجھتے ہوکہ میری شفاعت پاکیزہ مسلمانوں کے لئے ہے نہیں بلکہ وہ ان گناہ گاروںکے واسطے ہے جوگناہوں سے آلودہ اورخطاکارہیں۔ (مسنداحمد،ابن ماجہ) شب براء ت میں عبادت کاثواب حضرت علی المرتضیٰ شیرِخداروایت کرتے ہیں کہ حضورۖنے فرمایا!”جب شعبان المعظم کی پندرہویں رات ہوتواس رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی تجلی آفتاب کے غروب ہونے کے وقت سے ہی آسمان ِدنیا پر ظاہر ہوتی ہے۔ اوراللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اُسے بخش دوں،کیاکوئی رزق مانگنے والاہے کہ میں اُسکو عطا کروں، کیاکوئی مصیبت زدہ ہے کہ میں اسے چھوڑوں،کیاکوئی فلاں فلاں حاجت والا ہے کہ میں اسکی حاجت پوری کروں،حتیٰ کہ صبح ہوجاتی ہے۔(ابن ماجہ) شب براء ت کی رات دورکعت نمازنفل اسطرح پڑھیں۔کہ ہررکعت میں سورة الفاتحہ کے بعدآیت الکرسی ایک بارسورة اخلاص پندرہ پندرہ مرتبہ بعد سلام کے درودشریف ایک سوبارپڑھ کرترقی رزق کی دعاکریںانشاء اللہ اس نمازکی برکت سے رزق میں برکت ہو گی۔
شب براء ت بعدازنمازمغرب چھ رکعت نمازدودورکعتیں کرکے پڑھے۔پہلی دو رکعت درازی عمرکے لئے ،دوسری دورکعت دفع بلاکے لئے، تیسری دور کعت حصول رزق کی نیت سے پڑھیں،ہردورکعت کے بعدسورة یٰسین ایک باریاسورة اخلاص 21بارپڑھیںاسکے بعددعائے نصف شعبان المعظم ایک بار پڑھیں۔ اس رات سورکعت نمازاسطرح پڑھیں کہ ہررکعت میں سورة الفاتحہ کے بعدسورة اخلاص دس دس بارپڑھیںاس نمازکوصلوٰة الخیرکہتے ہیں ۔ حضرت حسن بصری نے فرمایاکہ مجھ سے سرورکائنات ۖ کے 30صحابہ کرام نے بیان کیا کہ جوشخص یہ نمازپڑھتاہے اللہ تعالیٰ اسکی طرف 70مرتبہ نگاہِ کرم فرمائے گااورہرنگاہ میں اسکی 70حاجتیں پوری فرمائے گا، اورادنی حاجت اسکی بخشش ہوگی ۔پندرہ شعبان کی رات سورة الدخان پڑھنابہت افضل ہے،انشاء اللہ اس کوپڑھنے والے کی اللہ تعالیٰ ستر حاجات دنیا کی اورسترحاجات عقبیٰ کی پوری فرمائیگا۔
میرے مسلمان بھائیو!ہم نے اس رات کوکیاسمجھاہم نے اپنے آپ کواس رات کی فضیلت سے محروم رکھاہوا ہے۔اس رات عبادت کی بجائے سب برے شیطانی کام کرتے ہیں۔ہم نے اس رات میںکفارومشرکین والی رسم کواپنالیاہے ،ہم اس رات آگ سے بچنے کی دعانہیں کرتے بلکہ اپنے گھرمحلہ شہرمیں سڑکوں پرآگ جلاکراس بات کاثبوت دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہو کر کفار و مشرکین والی رسموں کواپنائے ہوئے ہیں جسکی شریعت اجازت ہی نہیں دیتی اس رات کے علاوہ بھی یہ کام آگ جلانا، پٹاخے چھوڑنا ،بم وغیرہ پھٹانا حرام ہے۔اس سے ہمارا ذاتی کتنانقصان ہوتاہے کتنی جانیں چلی جاتی ہیں اس نقصان کااندازہ ہم اخبارات اورٹیلی ویژن وغیرہ سے لگاسکتے ہیں اللہ رب العزت ہم کواس بری رسم سے بچنے کی توفیق عطافرمائے اورآقائے دوجہاں سرورکائنات فخرموجوداتۖ کی سچی اورپکی محبت عطا فرمائے۔ اللہ رب العزت ملک ِ پاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے۔دشمنان اسلام ودشمنا ن ملک پاکستان کونیست ونابودفرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیک یا مُحَمَّدُ
Hafiz Kareem Ullah Chishti Pai Khel
تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل ضلع میانوالی 6828540 ۔0333