تحریر: انجینئر افتخار چودھری میں انجینئر افتخار چودھری خدا کو حاضر و ناضر جان کر اقرار کرتا ہوں کہ پی پی ٦ راولپنڈی کا ٹکٹ پی ٹی آئی کے داد خان کو بیچنے کا سودہ ہوا اور اس کا ایڈوانس جاوید ہاشمی کے فرنٹ مین نے چھ لاکھ لیا وہ خریدار ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں نون لیگ میں چلا گیا۔اس ٹکٹ کا اعلان عمران خان نے میریٹ میں چار سو لیڈروں کے درمیان میرے لئے کیا تھا جو بعد میں ایک پالیسی کے تحت یوتھ کو دے دیا گیا جس کی میں نے بھر پور حمائت کی۔ہاشمی کو اللہ سے ڈرنا چاہئے ایک تو اس پھوپھی سے جان نہیں چھٹتی جب بھی کوئی ہنسی خوشی اور مسرت کا موقع ہوتا ہے آ جاتی ہے سیاپا کرنے۔پاکستان کو اس قسم کی پھوپھیوں کی آکاش بیل نے گرفت میں لے رکھا ہے۔جاوید ہاشمی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ جاوید اختر ہاشمی تھے اور ملتان کے ایک کالج کے صدر یا جنرل سیکریٹری تھی۔ہم نے انہیں پہلی بار ہفت روزہ زندگی کے پشت والے صفحے پر دیکھا اور خوابوں میں بسا لیا۔
جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی آئے تو اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے سر گرم ہو گئے سچ پوچھیں ہم ان سے بہت متآثر ہوئے اور اپنا آئیڈیل بنا لیا۔انہی کو فالو کرتے ہوئے جمیعت کے حامی بن گئے جلد ہی رفیق اور پھر امیدوار رکنیت بن گئے۔رکن اس لئے نہ بن سکے کہ نظم کی کمی تھی۔ہاشمی نے بڑی تیزی سے مقبولیت کی بلندیاں چھوئیں۔وہ اسلامی جمیعت طلبہ کی تنظیم میں میری طرح ہی ایک رفیق تھے اور اپنی ساری اسٹوڈنٹس لائیف میں رکن نہ بن سکے۔انہوں نے جمیعت کا نام خوب استعمال کیا۔در اصل یہ پاکستانی سیاست میں جناب مجیب شامی کے متعارف کردہ تھے۔جو انہیں بعد ازیں جنرل ضیاء الحق کے پاس لے گئے۔سنا ہے امور نوجواناں کی منسٹری کا نام بھی جناب مجیب شامی نے تجویز کیا اور یہ کم عمری میں وزیر بن گئے۔جاوید ہاشمی کسی کے ہاتھ آنے والے نہ تھے انہیں چھوڑ جونیجو کا ساتھ دیا۔یہ ایک معمولی زمیندار تھے ان کے بھائی پیر نوبہار شاہ کے پاس بہت تھوڑی زمینیں تھیں اللہ نے جو بھاگ لگائے وہ منسٹری کے دوران رزق حلال کی کمائی سے بنایا گیا۔
مسلم لیگ نون کا ساتھ دیا اور بھرپور ساتھ دیا۔لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ مشکل دنوں میں میں نے لیگ سنبھالی اب اچھے دنوں میں مجھے صدر بنانا چاہئے تھے۔وہ گھنے نواز شریف کو نہ سمجھ سکے جو انھے کی طرح ساری ریوڑیاں گھر میں ہی بانٹنے کا ہنر رکھتے ہیں۔غالبا ان کا شک اب دور ہو گیا ہو گا۔میاں نواز شریف مطلق العنان شخص ہیں انہوں نے ہاشمی کو کنی دے کنارے لگائے رکھا۔پہلے لانگ مارچ کے دوران اور اس سے پہلے سعودی عرب سے جیلوں میں کالیں کر کے انہیں سمجھاتا رہا کہ پی ٹی آئی میں آ جائیں۔نواز شریف کے بے اعتنائیوں نے انہیں بلند فشار خون کا مریض بنا دیا اور وہ مرض لے کر پی ٹی آئی میں آ گئے۔یہاں انہیں بڑے کھلے دل سے خوش آمدید کہا گیا مگر پہلے ہی جلسے میں موصوف نے کراچی میں کہا کہ میں باغی ہوں باغی ہو سکتا ہوں اور اسمبلی میں ان کی تقریر نے سب کو ہلاکے رکھ دیا جب انہوں نے نواز شریف کو دیکھ کر کہا کہ آپ کل بھی میرے لیڈر تھے اور آج بھی لیڈر ہیں ہاشمی جنہیں عمران خان بے پناہ عزت دیتے تھے ان سے بے زار ہو گئے۔یہ بات واقعتا حیران کن تھی۔اب کوئی ان سے پوچھے کہ با با جی آپ پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے اسمبلی میں بیٹے ہیں اور لیڈر نواز شریف کو کہہ رہے ہیں۔ان کی سب سے بڑی بڑی بیماری یہ تھ کہ وہ انا کی دنیا کے باسی تھے۔ان کے ذہن میں بنگلہ دیش نامنظور کے وہ دن تھے جب ساری قوم ایک طالب علم رہنما کے پیچھے تھی۔قوم کے پاس کوئی لیڈر نہ تھا بھٹو ایک فاشسٹ تھا اس نے ظلم کے بازار گرم کئے ہوئے تھے وہ اسلامی کانفرنس کی آڑ میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا چاہتا تھا اسے یہ علم تھا کہ وہ بنگلہ دیش کے خالقین میں سے ایک ہے اور سب کو علم بھی ہے کہ ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ اس نے سوچ سمجھ کے لگایا تھا ایسے میں ہاشمی جیسا خوبصورت جوان جو بلا کا مقرر بھی تھا وہ اٹھ کھڑاہوا۔اسی دوران کھر کی خر مستیاں بھی عروج پر تھیں گورنر ہائوس سے لڑکیا ں برآمد ہوئیں اسلامیہ کالج کوپر روڈ کی فرخندہ پولی ٹیکنیک کے محبوب بٹ دیان خان سارے دلال بن گئے تھے ایسے میں ہاشمی ایک بہادری کی علامت بنے اور انہوں نے بھٹو کو چیلینج کیا۔
دیکھیں اللہ کے کام نرالے ہیں ایسے لوگ دنوں میں لیڈر بنے مگر اپنی ذات کے حصار میں رہنے والے کسی اور کو لیڈر نہ قبول کر سکے اور وہ لڑتے جھگڑتے اس دنیا سے چلے گئے جو رہ گئے وہ ناراض چلے جائیں گے۔سید مودودی کو ان سے پیار تھا وہ جوانوں سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے ان میں ہاشمی بلوچ پراچہ ،اور خاکسار جیسے لوگ شامل تھے۔لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ہاشمی ایک کچے آم کی طرح توڑے گئے تھے مجیب شامی نے انہیں تربیتی نظام میں جانے نہیں دیا اور وہ ساری عمر کچے آم ہی رہے۔ہر ادارے سے لڑائی ہر جماعت سے جھگڑا ۔ہاشمی لڑتے لڑتے قبر کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں میرا اللہ انہیں عمر خضر دے مگر سچ تو یہی ہے۔کہ وہ ناراض اور اوکھے ہیں جن کا کام ہی لڑنا رہ گیا ہے۔
اک جھگڑالو آدمی ہاشمی ہاشمی۔عمران خان کے ساتھ وہ کیسے چل سکتے تھے۔عمران خان کے ساتھ کئی لوگ آئے کئی چلے گئے اس کا اپنا فلسفہ اور سوچ ہے طریق کار ہے جو کسی کتاب میں درج نہیں اسے سمجھانے والے بن سمجھے چلے گئے۔جہانگیر ترین شاہ محمود قریشی ان کے ساتھ ہیں انہیں علم ہے کہ خان کیا سننا چاہتا ہے اور کس وقت وہ سننا پسند کرتا ہے اس لئے وہ ساتھ ہیں۔لوگ جب بابر اعوان۔فردوس عاشق کی بات کرتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود کی طرح زیرک ثابت ہوں گے۔نہ ہوئے تو دیکھ لیجئے گا پچھلی نشستوں پر ہوں گے۔خان کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی دونوں ہی خطر ناک ہیں میں گیارہ سال سے ساتھ ہوں مجھے پتہ ہے۔اب ہاشمی صاحب کو آج کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ گجرانوالہ میں جب حملہ ہوا تو عمران اور شیخ رشید میزوں کے نیچے چھپ گئے۔حضور وہ وقت اور تھا اب گجرانوالہ میں گجروں نے پی ٹی آئی جائین کی ہے اب کر کے دیکھ لیں اب ارقم خان طارق گجر پارٹی کے دستے میں موجود ہیں ۔ویسے ان سے پوچھے جب سنگ باری ہو تو سکھوں کے لیڈر کی طرح کھنا کھلوانا چاہئے۔ہاشمی صاحب آپ کو میں نے اپریل ٢٠١٣ میں کہا تھا کہ آپ گوربا چوف ہیں ۔دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ ٹکٹیں کس کس کو بیچی تھیں؟کس کس سے بیعانے پکڑے تھے؟ہاشمی صاحب نام بتا دوں۔یاد ہے میں نے کہا تھا کہ آپ پارٹی کے گوربا چوف ہو۔میں ٧٤ سے جانتا ہوں۔یہ پھوپھی خوشیوں میں رولا ڈالتی ہے۔اب سپریم کورٹ کے عظیم فیصلے کو گندا کرنے یہ باہر آ گئے ہیں۔پھوپھی نامراد خاموش رہے تو بہتر ہے لیکن چپ کیسے اک جھگڑالو آدمی ہاشمی ہاشمی۔