تحریر: رقیہ غزل علم ایک ایسا نور اورروشنی ہے کہ جس کی لو سے انسان کی زندگی کو ترویج ملتی ہے اور کائنات کی وسعتوں سے آگاہی ہوتی ہے سب سے بڑی بات یہ کہ ایک انسان کودنیا میں اپنے ہونے اور اپنی زندگی کے مقاصد کا تعین کرنے کا ادراک حاصل ہوتاہے دنیا میں جو بھی اقوام ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں ان کی زندگیوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے توان کی ترقی اور کامیابی وکامرانی کی بنیادان کا بلند معیار تعلیم ہے۔
ایسے میں ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارے پاس اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جو خدائی تعلیمات کی روشنی میں نبی آخرت ۖ کی حدیث و سنت کی شکل میں ایک عظیم علمی و عملی اثاثہ کے طور پر مسلمانوں کو عطا ہوا ہے اسی بدولت مسلم اکابرین نے قرآنی آیات کو صادق اور حقیقت مان کر زندگی کی کئی منزلوں کو طے اورآسان کیا ہے چونکہ جس خالق نے انسان کو تخلیق کیا ہے اس نے اپنے نبی ۖ کے ذریعے مسلم امہ کو نہ صرف حصول علم کی تاکید فرمائی بلکہ تعلیم کا حاصل کرنا مسلمان مردوزن کے لیے ایک فریضہ قرار دیا ۔اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تویہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ نبی رحمتۖ کہ جن کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد غیر مسلم دانشوران اور مئورخ بھی اس ہستی کو دنیا کا سب سے کامیاب ترین، افضل ترین اور بے مثل انسان کہنے پر مجبور ہوئے آپۖ نے ہر شعبہ زندگی میں کمال کر کے دکھایاآپۖ نے علم کو عام کرنے کے لیے مسجد نبوی جو کہ اس وقت مسلمانوں کا سیکریٹریٹ تھا اسی کے اندر ایک چبوترہ تعمیر فرمایا جس پر بیٹھ کر آپۖ کے اصحاب مقامی اور بیرونی علاقوں سے آکر تعلیم حاصل کرتے تھے اور پھر انھیں ان کی تعلیمی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر مختلف مقاصد کے حصول کے لیے مختلف علاقوں میں بجھوایا جاتا تھا ۔اس طرح اسلامی ریاست وسعتیں پکڑتی گئی اور پھر ایک وہ وقت آیا کہ اقوام عالم میں کوئی ایسا نہ تھا جو اسلامی ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ ہو یہ طے تھا کہ یا تو اللہ تعالیٰ کے پیغام( اسلام )کو قبول کرنا ہوگا یا” زمی” کی صورت میں اطاعت گزار بن کر رہنا ہوگا ۔اس تحریر کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت بھی معیار تعلیم اور تعلیم یافتہ افراد کے میرٹ کا صحیح تعین کیا گیا تھاجس کے نتیجہ میں ایسے مقاصد حاصل ہوئے کہ لکھنے والوں نے لکھا کہ
” وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا ”
Merit
ذرا سوچیں کہ وہ دور جبکہ ہر طرح کی بے سرو سامانیاں تھیں اسباب کا فقدان تھا ہر نوع کی پریشانیاں تھیں مگر درس و تدریس کے معاملے میں اور تعلیم مکمل کر لینے والے افراد کی تعیناتی کے معاملے میں میرٹ کے سلسلہ میں کوئی نا انصافی، زیادتی یا حق تلفی نہ تھی یہی وجہ تھی کہ حق و باطل کا فرق واضح ہوا اسلام کا بول بالا ہوا اور باطل مٹ گیا۔نبی پاکۖنے اپنی امت کو بتایا کہ یہ دنیا دارالعمل ہے اور ہر عمل کا حساب روز محشر ہوگا اچھا کرنے سے اچھائی پھیلے گی اور برا کرنے سے برائی پھیلے گی ۔آج ہم اس خطہ پاک میں جس کا نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہے اور ہم جمہوریت کے علمبردار ہیں چونکہ پوری دنیا جمہوریت کے نام پر جا بجا محفلیں اور سیمینارز منعقد کر تی ہے تو ایک ہی سوال جو ارباب اقتدار و اختیار اور حلقہ دانش وراں سے ہے وہ یہ کہ صرف دنوں کے تقریری و تشہیری جشن منانے سے کیا مقاصد حاصل ہونگے جو سوائے اس کہ کے ہر صاحب اقتدار ، نامور سیاستدان اور معاشرے کے نام نہاد شہرت کے بھوکے افراد کے بیانات اخبارات میں خبروں اور شہ سرخیوں کی شکل میں عوام پڑھ لیتے ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا پر ان سے زیادہ رابطہ کار احباب کے بیانات اور ان کی تشہیری مہموں کی کار کردگی کی فلمیں اور ویڈیوز دکھا دی جاتی ہیں جس سے جمہوریت کی مضبوطی بارے روایتی اور خوش آمدی بیانات دن رات چلتے رہتے ہیں۔
حالانکہ حالات یہ ہیں کہ شعبئہ تعلیم میں ہر سطح پر جابجا میرٹ کا خون کیا جا رہا ہے اور معیار تعلیم کے تیزی سے گرنے کی کسی کوفکر بھی خبر نہیں ہے اس سے بڑھ کر اور کیا افسوسناک بات ہے کہ ایشیا کے ٹاپ ٹین اداروں کی فہرست میں بھی پاکستان کا کوئی ادارہ شامل نہیں ہے اور ہماری بے حسی اور لاپرواہی کی انتہا یہ ہے کہ ہمارے بعض اساتذہ اور بعض ارباب اختیار قہقے لگا کر برجستہ کہہ دیتے ہیں کہ ”چلو کوئی گل نہیں ”یوں لگتا ہے کہ جیسے ”ذاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن” ہیں ۔بچوں کی تعلیمی رفتار ترقی اور تدریسی کار کردگی ہی جب کنٹرول میں نہیں ہے تو ان مستقبل کے نو نہالان کی بہترین تربیت کرنے کا یقین کیسے دلایا جا سکتا ہے یا ترقی و خوشحالی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نئی نسل فریب خوردہ شاہینوں کی صورت میں پروان چڑھ رہی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ جو لوگ اپنے ماں باپ کی قیمتی جمع پونجی اور اپنی شب و روز کی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کی سفارش یا رشوت کی ادائیگی کا” زینہ ”نہ ہونے کیوجہ سے اپنے لائق کوئی عہدہ یا منصب حاصل نہیں کر پاتے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میںاکثر جگہوں پر میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاری ہیں۔
یہ ایک سیدھی سی بات ہے کہ ایک بہترین معاشرے کی بنیاد ہر سطح پر قانون و انصاف کی عملداری ہوتا ہے اس میں تو اب کوئی شک نہیں کہ ہماری عدالتیں بھی جلد از جلد انصاف دینے میں مسلسل ناکام ہیں اور ہمارے جوڈیشل کمیشن حکومتوں کی آشیر باد اور من مرضیوں کے مطابق فیصلے کرتے چلے آرہے ہیں اور ہماری حکومتوںاور اداروں کے لیے یہ بڑا آسان کام ہے کہ جتنے دن میڈیا پر بات چل رہی ہے اتنے دن پھرتیاں اور چالاکیاں دکھا کر عوام الناس کو الجھا دیا جاتا ہے اور معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی من مرضی کا فیصلہ صادر کروا لیا جاتا ہے مگر وہ فیصلے جو میرٹ کے مطابق نہیں ہوتے تو اس سے معاشرے میں معاشی انتقام فروغ پاتا ہے اور یہی وہ جذبات ہیں جو کہ انتشار اور انتہا پسندی کو پروان چڑھاتے ہیں اس کے نتیجے میں لوگوں میں بے یقینی اور بالآخر بے حسی آنے کے وجہ سے وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہے نمونے کے طور چند روز قبل ایک کھلا خط جوجناب جنرل راحیل شریف اور قومی اداروں کے نام لکھا گیا سوشل میڈیا کی وساطت سے منظر عام پر آیاہے ملاحظہ فرمائیں ۔۔
Appeal
”میں خضدار کی بیٹی زبیدہ ظاہری جو کہ ایک بے بس اور بے سہارا یتیم لڑکی ہوں میں محکمہ تعلیم میں میرٹ کی بنیا دپر معلم القرآن کی پوسٹ پر 2013ء میں تعینات ہوئی اور مئیر خضدار عبد الرحیم کر دنے اپنے ہمنوائوں اور نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر محکمہ تعلیم کے کچھ افسران سے ملی بھگت کر کے مجھے ٤ سال بعد ملازمت سے نکال دیا گیا ہے اور میری جگہ مئیر خضدار کی بیٹی عبدالرحیم کرد کی بیٹی بی بی عطیہ رحیم کو تعینات کروا دیا گیا ہے جو کہ میرٹ میں تیسری پوزیشن پر ہے میں جناب چیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل راحیل شریف سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہوں کہ میرے ساتھ نا انصافی کا ہنگامی طور پر نوٹس لے کر مجھے زندگی بخش دیں کیونکہ میں اس ظلم نا انصافی کو برداشت نہیں کر سکتی ہوں اور مجھے انصاف دلایا جائے اور تحقیقات کریں کہ محکمہ سے کن قوانین کے تحت مجھے ملازمت دی ہے اور چار سال تنخواہ دی ہے اور اب مجھے کس بنیاد پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے میں جناب چیف آف آرمی سٹاف جناب راحیل شریف سمیت تمام قومی اداروں کے سربراہان FIA,MIA,NAB اور تمام انسانی حقوق کے علمبرداروں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہوں کہ ایک بے بس یتیم لڑکی کی فریاد سنیں اور تحقیقات کریں اور انصاف دلایاجائے خدارا انصاف دلایاجائے ۔شکریہ آپ سب کی یتیم اور بے بس بہن خضدار کی بیٹی (زبیدہ زہری بنت عرض محمد (مرحوم )معلم القرآن ضلع خضدار ” تفصیلات کے مطابق اس لڑکی کو متبادل نوکری آفر کی گئی ہے مگر وہ اسی جگہ اپنی ملازمت جاری رکھنے کی خواہشمند ہے اور ویسے بھی اگر وہ اپنی ذمہ داری بطریق احسن سرانجام دے رہی تھی تو یہ اس کا حق بنتا تھا کہ اسے اسی جگہ پر نہ صرف بحال کیا جائے بلکہ اسے مستقل کیا جائے اور مزید میرٹ کی دھجیاں نہ اڑائی جائیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ تو بلوچستان کا واقعہ تھا لیکن لگ بھگ سبھی صوبوں میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کے حالات اور بھرتیاں اکثر جگہوں پر ذاتی مفادات اور رقابت داروں کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہیں بلکہ اعلی عہدے داران کی طرف سے یہ باقاعدہ کہا جاتا ہے کہ آپ بس امتحان میں بیٹھ جائیں ۔۔باقی دیکھ لیں گے ! اگر ہم اس نظام کی گہرائی میں جائیں تو امتحان لینے والوں کے سٹوڈننٹس کبھی فیل ہی نہیں ہوتے اوراکثر با اثر یونیورسٹی اساتذہ کی سٹوڈنٹس کوتعلیم سے فارغ ہونے سے پہلے ہی اچھے تعلیمی اداروں میں ملازمتیں مل جاتی ہیں اگرچہ وہ اوسط قابلیت کی ہی حامل کیوں نہ ہوں بلکہ سرکاری نوکریاں بھی آسانی سے بعض ایسی لڑکیوں کو مل جاتی ہیں جو کہ بعض ہائی پروفائیل کے حامل اساتذہ کے ساتھ زیادہ احترام رکھتی ہیں اور بالعموم اکثر کوشرف خدمت کے طور پر بھی عنایات ہو جاتی ہیں۔
الغرض ۔۔دھندا ہے یہ پر گندا ہے یہ ۔۔ویسے تو بے شمار واقعات ہیں مگر حال ہی میں میرے علم میں لاہور کا بھی ایک واقعہ آیا کہ ہائر ایجویشن کے تبادلوں میں مستحققین کی جگہ ذاتی تعلق داروں کو سیٹیں دی گئیں اور با قاعدہ اس پر ہنگامہ آرائی بھی ہوئی بہرحال میرا مقصد کسی مخصوص کرپشن کو بلا وجہ نشر کرنا نہیں ہے کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو پہلے ہی ہر کسی کے علم میں ہیںعرض یہ ہے کہ محکمہ ایجوکیشن کو کم ازکم سیاست اور مفادات سے بالاتر ہونا چاہیئے کیونکہ اس کے ساتھ ہماری قوم کا مستقبل جڑا ہوا ہے اور اس کی شفافیت ہی ہمیں تابناک مستقبل دے سکتی ہے !یہ ایک المیہ ہے کہ مظلوم اور حقدار کی بات نہ سنی جائے مگر یہ خوش آئین ہے کہ ایسے دل شکستہ اور مایوس افراد کیلئے میڈیا کرپشن اور نا انصافی کی کہانیاں پرنٹ اور نشر کر کے گرانقدر خدمات سرانجام دیتا ہے جس سے کہ ظالم اور حق چھیننے والے کا کہیں کہیں احتساب ضرور ہوتا ہے بہرحال میرٹ کی یہ بکھری ہوئی دھجیاں اور حق داران کی حوصلہ شکنیاں ختم کر کے ہی ہم ایک کامیاب اور مقامی جمہوریت کہلا سکتے ہیں۔