جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) ماہرین کے مطابق نئی جرمن حکومت جنوب مشرقی ایشیا میں اپنے ترقیاتی منصوبہ جات کو مزید وسعت دے سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نئی جرمن حکومت یقینی طور پر ایسی پالیسی کو مزید فعال بنا سکتی ہے۔
جرمنی کے وفاقی انتخابات رواں مہینے کی چھبیس تاریخ کو ہوں گے۔ انگیلا میرکل کی چانسلری کا سولہ سالہ دور اختتام کے قریب ہے۔ ماہرین کے مطابق امکان ہے کہ نئی حکومت میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور حلیف کرسچین سوشل یونین کے بغیر ہی تشکیل پا جائے، اس صورت میں جنوب مشرقی ایشیائی پالیسی میں واضح تبدیلی ممکن ہے۔
فرائی بیرگ یونیورسٹی کے جنوب مشرقی ایشیائی امور کے ماہر ژؤرگن رُولینڈ کا کہنا ہے کہ انگیلا میرکل نے اپنے سولہ سالہ اقتدار کے دوران چین کے ایک درجن دورے کیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اس عرصے میں خاص طور پر بیجنگ حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات کو تسلسل دیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چین، جرمن اشیا کا اہم خریدار ہے۔
ژؤرگن رُولینڈ کا مزید کہنا تھا کہ آسیان تنظیم کے ساتھ روابط کی دستاویز ٹریٹی برائے آمیٹی (دوستی) اور کوآپریشن (تعاون) پر بھی جرمنی نے ابھی دستخط نہیں کیے۔ یہی معاہدہ آسیان کے ساتھ روابط کے قواعد وضع کرتا ہے۔ اس معاہدے پر سن 2019 میں دستخط کرنا لازمی تھا اور اس کے بعد ہی کوئی یورپی ملک آسیان کا ترقیاتی پارٹنر ہو سکتا ہے۔
ژؤرگن رُولینڈ کے مطابق جرمنی کے جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ تعلقات بنیادی طور پر اقتصادی ہیں اور کسی حد تک انہیں ترقیاتی تعاون بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ میرکل کے دور میں جرمنی اور یورپی یونین نے آسیان بلاک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
سن 2020 میں برلن حکومت نے انڈو پیسیفک خطے کے لیے رہنما اصولوں کا کتابچہ جاری کیا تھا اور اسے علامتی طور ‘اسٹریٹجی‘ کا نام نہیں دیا گیا۔ اس میں چین کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شائبہ بھی ملتا ہے۔ اس کے باوجود چینی منڈیوں میں جرمن سامان کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ژؤرگن رُولینڈ کا کہنا ہے کہ چین کو ذمہ دار ٹھہرائے بغیر جرمنی کی جانب سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پر بیجنگ حکومت کی بڑھتی اجارہ داری پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ژؤرگن رُولینڈ کا کہنا ہے کہ رہنما اصولوں میں آسیان کو مرکزی ادارے کے طور پر تسلیم کیا گیا کہ یہ اس خطے میں بنیادی راستہ فراہم کرتا ہے۔ دوسری جانب آسیان ممالک میں امن کی خواہش کے باوجود کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔
رواں برس جرمنی نے بحیرہ جنوبی چین میں اپنا ایک جنگی جہاز بھی بھیجا تھا، جو ایک خیرسگالی کے مشن پر تھا۔ سن 2002 کے بعد یہ پہلا جنگی جہاز تھا جو اس سمندر میں روانہ کیا گیا تھا۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ جرمنی جنوب مشرقی ایشیا میں کبھی بھی جیو پولیٹیکل معاملات میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم نہیں رہا۔
تازہ ترین رائے عامہ کے اعداد و شمار کے مطابق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، جو میرکل کی موجودہ حکومت میں جونیئر پارٹنر ہے، کو بقیہ سیاسی جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔ الیکشن کے بعد یہ جماعت گرین پارٹی اورپرو بزنس فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جنوب مشرقی ایشیائی پالیسی میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔
نئی مخلوط حکومت میں کسی چینی ناقد پارٹی کی موجودگی اسٹرٹیجیک اہمیت کی حامل ہو گی۔ ایک ماہر کے مطابق ایسی صورت میں آسیان کے رکن ملکوں کی وقعت بڑھ جائے گی۔ یہ بھی اہم ہے کہ گزشتہ بارہ مہینوں میں جرمن سیاسی جماتیں چین مخالف بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں گرین پارٹی خاص طور پر اہم ہے کیونکہ یہ بیجنگ حکومت کی سب سے بڑی ناقد ہے اور اس کی وجہ اس پارٹی کی انسانی حقوق کی پرزور حمایت کرنا خیال کیا جاتا ہے۔