جرمن (جیوڈیسک) جرمنی اور جرمن چانسلر میرکل کے لیے 2018ء ان سے بہت مختلف حالات میں ختم ہو رہا ہے، جن میں یہ سال شروع ہوا تھا۔ اس برس جنوری میں میرکل ٹرمپ مخالف امیدوں کی علامت بن چکی تھیں لیکن پھر یہ سال مسلسل زیر و بم کا سال بن گیا۔
سال رواں سیاسی طور پر جرمنی میں بہت منفرد حد تک ٹوٹ پھوٹ کا سال رہا۔ جو ایک تصویر ہر کسی کے ذہن میں بیٹھ گئی، وہ وفاقی چانسلر انگیلا میرکل اور وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جرمن چانسلر آفس کی بالکونی میں لی گئی وہ تصویر تھی، جو وفاقی مخلوط حکومت میں شامل دونوں قدامت پسند یونین جماعتوں کے مابین اختلافات کی علامت بن گئی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
اس دوران ہورسٹ زیہوفر کا جنوبی صوبے باویریا کی قدامت جماعت کرسچین سوشل یونین کے سربراہ کے طور پر رویہ ایک سیاسی باغی کا سا تھا، جس نے میرکل کو تھکا دیا تھا۔
دونوں کے مابین اختلاف رائے جرمنی آنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے قومی سرحدی علاقوں میں عبوری مراکز کے قیام کی متنازعہ تجویز سے متعلق تھا۔
یہ تنازعہ کئی ہفتوں تک جاری رہا، جس دوران زیہوفر نے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دے دی تھی لیکن پھر موسم گرما میں زیہوفر کی پارٹی سی ایس یو اور میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کے مابین اتفاق رائے ہو ہی گیا۔
جرمن سربراہ حکومت انگیلا میرکل کی ذات اور ان پر کسی ذہنی دباؤ کا موجود رہنا ایسے ہی تھا، جیسے جھیل میں وہ پانی جو کسی بطخ کے پروں پر تو ٹھہر نہیں سکتا، بلکہ اس کے پیروں کے نیچے ہی رہتا ہے۔ لیکن 2018ء میں یہ صورت حال وہی نہیں رہی تھی، جیسی پچھلے کئی برسوں سے ہوتی تھی۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے ایک تازہ مضمون کے مطابق 2017ء میں انگیلا میرکل نے مجموعی طور پر چوتھی مرتبہ جرمن چانسلر کے عہدے کے لیے انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کا فیصلہ صرف اس لیے کیا تھا کہ وہ سوچتی تھیں کہ امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کو یورپ میں متوازن کر دینے والا ایک ’مخالف وزن‘ بھی ہونا چاہیے۔
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
میرکل کے مطابق دنیا کو ترازو کے اس دوسرے پلڑے کی ضرورت تھی۔ لیکن اگر یہی بات سچ تھی، تو سال رواں اعتدال پسند میرکل اور جرمن سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پختہ ڈھانچوں میں دراڑوں کا سال ثابت ہوا۔
اس سال کے ابتدائی مہینے انگیلا میرکل نے سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی کے ساتھ طویل سیاسی مذاکرات کرتے ہوئے گزارے تھے، جن کا مقصد برلن میں ایک نئی وسیع تر مخلوط حکومت کی تشکیل تھا۔
میرکل اپنی کوششوں میں کامیاب رہیں اور ان کی پارٹی نے گزشتہ انتخابات کے کئی ماہ بعد سی ایس یو اور ایس پی ڈی کے ساتھ مل کر ایک بار پھر مخلوط وفاقی حکومت بنا لی۔
اسی عرصے میں ایس پی ڈی کے سربراہ مارٹن شُلس صرف ایک سال تک اپنی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے کے بعد اس عہدے سے رخصت ہو گئے۔
پھر جرمنی کی سب سے پرانی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے مارٹن شُلس کی جانشین کے طور پر تاریخ رقم کرتے ہوئے آندریا ناہلس کی صورت میں ایک خاتون سیاستدان کو اپنی سربراہ چن لیا۔
اس سال موسم خزاں میں جرمن شہر کیمنِٹس میں مہاجرین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی واضح طور پر جرمن سیاست میں ہنگاموں کا باعث بنے۔ ان مظاہروں کے نقطہ عروج پر پناہ کے متلاشی ایک تارک وطن نے مبینہ طور پر ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنخواہ سنگاپور کے وزیر اعظم لی شین لونگ کی ہے۔ اس عہدے پر اپنی خدمات کے عوض وہ ہر ماہ ایک لاکھ سینتالیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر رقم وصول کرتے ہیں۔
سیاسی طور پر جرمنی کو امریکا کی طرح ڈیموکریٹک اور ریبپلکن پارٹی کی اکثریت والی نیلی اور سرخ ریاستوں میں تو تقسیم نہیں کیا جا سکتا لیکن کیمنِٹس میں ہونے والے احتجاج نے جرمن معاشرے کو واضح طور پر تارکین وطن کی آمد کی حمایت اور مخالفت کرنے والے دو بڑے دھڑوں میں تقسیم کر دیا۔
اسی سال متعدد جرمن صوبوں میں علاقائی الیکشن بھی ہوئے، جن میں قدامت پسند جماعتوں کی کارکردگی خاصی بری رہی۔ اس کے علاوہ اکتوبر میں چانسلر میرکل نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ اگلے عام انتخابات کے بعد سربراہ حکومت کے عہدے کے لیے ایک بار پھر امیدوار نہیں ہوں گی۔ یہ عام الیکشن 2021ء میں ہوں گے۔
پھر نومبر میں میرکل نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ اپنی پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہونا چاہتی ہیں۔ دسمبر کے اوائل میں ان کی ایک قریبی معتمد اور سیاسی ساتھی خاتون آنےگَریٹ کرامپ کارن باؤر کو کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی نئی سربراہ منتخب کر لیا گیا۔
رواں برس کے آغاز تک شلس ایک یورپی سیاستدان تھے۔ وہ یورپی سوشلسٹ بلاک کے سربراہ اور 2012ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اب شلس میرکل کے مقابلے میں چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے تین امیدوار میرکل کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔
دریں اثناء جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹس اپنی روایتی کامیاب پوزیشن سے کافی پیچھے جا چکے ہیں اور اب ان کا شمار جرمنی کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کے طور پر نہیں ہوتا۔ قدامت پسند یونین جماعتیں ابھی تک جرمنی کی سب سے بڑی سیاسی طاقت ہیں، جن کے بعد دوسرے نمبر پر اب ماحول پسندوں کی گرین پارٹی آ چکی ہے، کم ازکم عوامی جائزے یہی بتاتے ہیں۔
2018ء جب شروع ہوا تھا، تو کئی لوگوں کو یہ امید تھی کہ انگیلا میرکل عالمی سیاسی قیادت میں شاید وہ جگہ لے لیں گی، جو امریکا میں صدر ٹرمپ کے طرز سیاست کی وجہ سے خالی ہو گئی تھی۔ لیکن میرکل عالمی سطح پر یہ قائدانہ حیثیت حاصل کرنے میں ناکام رہیں اور اب 2019ء کو ایک ایسا سال قرار دیا جا رہا ہے، جو اب تک کی صورت حال کے مطابق ایک ایسا سال ہو گا کہ اس کے بارے میں کسی بھی طرح کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔