تحریر: محمداعظم عظیم اعظم آج معاشرے میں بیجااور غلط بڑھتا ہوا موبائل فونز کا استعمال معاشرتی بگاڑ اور گھریلوج ھگڑوں کا سبب بھی بننے لگاہے، پہلے تواِس پر ابہام پایاجاتاتھامگر اَب یقین ہوگیاہے کہ مُلک میں موبائل فونز کا بڑھتاہوا بیجااور غلط استعمال دہشت گردی سمیت بہت سی دیگر بُرائیو ں کا باعث بھی بن گیاہے،آج جہاں اسلام آباد میں بیوی کے موبائل فون پر آنے والے ایک میسج پر شوہرکے شک نے 5اِنسانوں کے لرزہ خیزہونے والے قتل نے قوم کو غم زدہ اور افسردہ کردیاہے تو وہیں اس واقعے نے بہت سے سوالات بھی پیداکردیئے ہیں،اور قوم کے ہر اُس فرد کو جھنجھوڑدیاہے جو اپنے موبائل کو غلط مقاصداور دوسروں کی اچھی بھلی زندگیوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اَب اِنہیںاندازہ ہوناچاہئے اِن کے ذراسے مذاق اور شغل سے خاندان کیسے تباہ ہوتے ہیںاِس کی ایک تازہ مثال اسلام آباد کے علاقے جی سکس میںپیش آنے والایہ واقعہ بہت ہے جس میں ایک خاندان کے پانچ افرادکو قتل ہونے سے پوری نسل کو تباہ کردیاہے،اَب اِس واقعے کے پیش آنے کے بعداصل محرکات کا پتہ لگانااور اِس سے قوم کو آگاہ کرنابھی تحقیقات کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صاف وشفاف طریقوں سے تحقیقات کریں اور قوم کو بتائیں کہ ایک ایس ایم ایس نے ایک ممتاکیسے اورکیوں دائن بنادیا…؟؟۔
ایسا بھی نہیں کہ وہ کوئی جاہل یا کم پڑھے لکھے لوگ تھے، ایک پی ایچ ڈی تھاتودوسراایم اے تک تعلیم حاصل کئے ہوئے تھادونوں ہی اچھے تعلیم یافتہ تھے، اور پوری طرح باشعوراورزمانے اور معاشرے کے طورطریقوں میں اچھی طرح سے واقف اور اپنے اچھے بُرے کی تمیزکرنے والے تھے، مگر اَب اِس کاکیا کیاجائے ..؟؟جب اِنسانوں پر شیطانیت غالب ہوجائے…اور شک دِل اور دماغ میںگھرکرجائے ، تو پھر کسی بھی زمانے ،کسی بھی معاشرے، کسی بھی مذہب اور کسی بھی مُلک اور کسی بھی سرحدسے تعلق رکھنے والے اِنسانوں کے ساتھ بلارنگ و نسل زبان و تہذیب یہی کچھ ہوتاآیا ہے جیساکہ گزشتہ دِنوں ایک ہولناک واقعہ اسلام آبادکے تھانہ آبپارہ کے علاقے جی سکس میں پیش آیا کہ ایک موبائل میسج نے 5 اِنسانوں کو موت کی وادی میں پہنچاکراِنہیں ابدی نیندسونے کے لئے قبرکی آغوش میں دے دیاہے۔
اِس سارے واقعے میں اِس مرتبہ بھی شک مردکے ہی دل و دماغ میں پیداہوامگر یہ واقعہ ہمارے یہاں ماضی میں پیش آئے روائتی واقعات سے ذرا ہٹ کر رونماہواہے کیوں کہ اِس واقعے میںفرق صرف اتناتھا کہ اِس بار گولی چلانے وا لا مردنہیں تھا بلکہ ایک عورت تھی جی وہ عورت جس کے دل میں ممتاہوتی ہے اوریہ ہمارے مردوں کے معاشرے میں استحصالی اور سب سے زیادہ کمزور طبقہ تصورکیاجاتی ہے،مگرآج کیاوجہ بنی کہ اِسی استحصالی اور کمزورطبقے سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کوثرشاہدہ جس کے دل میں ممتاکے انمٹ اور نہ ختم ہونے والے جذبات تھے، اِس نے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر وہ کردیاجس سے دنیاکا ممتاپر سے اعتباراُٹھ گیاہے۔
Woman Mobile Use
یہاں زرا سوچیں کہ اس نے اپنایہ انتہائی قدم کیوں اُٹھایا…؟؟اِس سارے واقعے میں کس کا قصور تھا…؟؟کیا اگر آج میرے ملک اور معاشرے کے سارے مرداسی طرح اپنی بیوں کے موبائل پر آنے والے کسی بے ہودہ مسیج پر شک کرنے لگیں …؟؟اور کیایہ اپنی مرد انگی کا فائدہ اُٹھا کریوں ہی اپنے گھروں کو جہنم بناتے رہیںگے …؟؟ ایسے میں کبھی یہ اور کبھی گھروں کی عورتیں گولیاں چلاتی رہیں گیں..؟؟اور اِسی طرح کیا میرے معاشرے میں ہر گھرمیں کسی ایسے ویسے ایک ایس ایم ایس کو بنیاد بناکر گھریلوتنازعات پیداہوتے رہیں گے…؟؟ تو کیاایسا یہی کچھ ہوتارہتارہے گا…؟؟جیساکہ پچھلے دِنوں اسلام آبادکے علاقے جی سکس میں ہواہے…؟؟
جبکہ یہاں مندرجہ بالاسوالات کے ساتھ ساتھ کیا ایسے سوالات بھی پیدانہیں ہوں گے کہ کیا کوثرشاہدہ کو ایساکرناچاہئے تھا جو اِس نے کیاہے..؟؟ یا ممتاکے ہاتھوں مجبورہوکروہ سب کچھ برداشت کرتی اوراپنی زندگی خاموشی سے گزاردیتی ….؟؟اور اپنافیصلہ اللہ پر چھوڑدیتی …مگرایسانہ کرتی جیسااُن نے کیاہے …؟؟اور کیا اِسی کے ہاتھوں قتل ہونے والے اِس کے مقتول شوہر (فاروق خٹک) جو ایک اعلی ٰ تعلیم یافتہ اور کسی اچھے ادارے میں گریڈ19میں آئی ٹی ڈائریکٹرتھااِسے اپنی بیوی کے موبائل فون پر آئے ایس ایم ایس پر شک کرناچاہئے تھا..؟؟اور اگر اِس نے شک کیاہی تھاتو…اِس نے اپنی بیوی کے موبائل پر آنے والے ایک میسج (SMS) پرانتاشک کیوں کیا…؟؟ اور بھی درگزر سے کام لیتااور اپنی زندگی ہنسی خوشی گزارتا…؟ ملزمہ کے شوہرنے اپنے شک کی بنیاد پر ملزمہ کو کیا کچھ بُرابھلا کہاہوگا…؟؟ جو مقتولہ کوثرشاہدہ کے دل کو چھلنی کرگیاہوگا…؟؟یہ ایک علیحدہ غوراور تحقیقات طلب مسئلہ ہے جس پر پولیس کے ذرائع کام کررہے ہیں کہ ایسی نوبت کیوں پیداہوئی کہ جس نے ایک ممتاسے بھری ماں کو اپنی تین بیٹیوںاور بیٹے سمیت اپنے شوہر پر بھی گولیاں چلانے پر مجبورکردیا۔
بہرحال ..!!حالات اور واقعات یہ ضرور بتارہے ہیں کہ یقینااِس کے شوہر کی زبان سے نکلے الفاظ اور تیزوتندجملے ایسے ہوں گے جو نہ صرف مقتولہ کوثرشاہد ہ کی برداشت کی حد ختم کرگئے بلکہ اِس کے دل میں سمندر کی گہرائیوں سے بھی زیادہ گہرا اور آسمان کی بلندیوں سے بھی زیادہ بلند ممتاکے جذبات کو چکناچورکرگئے ،اور اِس نے دنیاکے سارے رشتے ناطے حتیٰ کہ اپنی ممتاکو بھی ایک طرف پھینک کر خود پر ڈائن کا روپ دھارلیا اور گھر میں رکھی ہوئی پستول سے پہلے شک کرنے والے اپنے شوہر فاروق خٹک پر دوفائر کئے جس سے وہ ہلاک ہوااور پھر اپنے بیٹے پر گولی چلائی خوش قسمتی سے وہ بچ گیااور جب اِس سے بھی اِس کے غصہ اور بے عزتی کا بدلہ لینے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی اور اِس پرچھائی حیوانیت کم نہ ہوئی تو پھر اِس ظالم ماں نے اپنی تین معصوم بیٹوں 6،8 اور10 سالہ نمرہ ، ردااور رانیہ کو بھی سفاک گولی کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں بھی موت کے گھاٹ اُتاردیااور خودبھی اپنی کنپٹی پر بستول سے فائرکرکے خودکشی کرلی اور ملک اور معاشرے میں سفاکیت کی وہ داستان لکھ گئی جو صدیوں یادرہے گی۔