پیغام رسالت کون سنبھالے گا

Pegham e Risalat

Pegham e Risalat

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق فرمانے کے بعد سب پر اپنے پیغام کو پیش کیا کہ اس کو وہ سنبھالیں زمین و آسمان اور پہاڑوں نے اس بارگراں کو اٹھانے سے معذرت کرلی مگر انسان نے اس کا بوجھ اٹھا لیا۔اب انسان پر لازم ہے کہ وہ شریعت مطہرہ پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرے۔عربوں کی خاص نفسیات و طبیعت ہوتی ہے اور ان کی عادات و تقالید بھی متعین ہوتی ہیں جن کے پس منظر میں وہ زندگی بسر کرتے ہیں۔بدقسمتی کی بات ہے کہ عرب کی جو تہذیب و ثقافت اور جو انہوں نے اسلام سے اتحاد و یگانگت اور الفت و محبت کا درس لیا وہ اب ڈھونڈنے سے بھی موجودہ عرب باشندوں میں نہیں ملتا۔جزیرة العرب کے باسی جو گمراہی و ضلالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے نے نبی آخر الزمانۖ کی عالمی و آفاقی دعوت پر لبیک کہاتھا۔جن لوگوں نے اسلام کو اپنے سینہ سے لگایا وہ اپنے دور کے معزز و محترم ترین انسان تھے کہ ان سے بہتر امت روئے زمین پر کوئی نہ تھی۔ان میں سے بھی بہترین وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی دعوت کا پہریرا لہرایا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ جانتاہے کہ وہ کس قوم میں رسالت (اپنا پیغام)کو بھیج رہاہے۔اسی کا نتیجہ تھا کہ دوسری تمام اقوام ان مسلم عربوں کے سامنے دوزانوں احتراماً کھڑے ہوجاتے تھے اور ان کی ہر بات پر لبیک کہتے اورایسا کیوں نہ کرتے انہوں نے تو فرس و روم کی سطوت و جبروتیت اور ان کی ہوا و ہوس اور برائیوں کا مشاہدہ کیا ہواتھا لہذا وہ مسلمانوں کے اخلاق حسنہ سے متاثر ہوجاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اسی لیے ملت عربیہ کو دعوت و رسالت کا بوجھ اٹھانے کے لیے چنا۔

عرب قوم نے رسالت کا بوجھ اٹھایا اور اس کی حفاظت کا اور اس کے نشرواشاعت کا انتظام کیا جبکہ یہ بہت مشکل ذمہ داری تھی نبھانے کے لیے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے انبیاء سے میثاق (عہد/وعدہ)لیا آپۖ سے ،حضرت نوح سے، حضرت ابرہیم سے، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ بن مریم سے ،اور ہم نے لیا پکا عہد۔تاکہ سوال کرسکیں سچے لوگوں سے ان کی سچائی سے متعلق اور انکار کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب تیار کیا گیا۔اس گراں بار ذمہ داری کے ساتھ وفاداری کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے کی سعی کرنے میں عزت و عظمت اور بلندی مرتبت ملنے کے امکانات روشن تھے اور اس سے موئے انحراف برتنے اور اس کو چھوڑدینے میں ذلت و رسوائی لازم تھی۔

مشہور و معروف ہے کہ عرب لوگ سامی النسل ہیں اور یہود انہی کی فرع میں سے ۔یہودیوں کے پاس بھی وحی آئی لیکن انہوں نے آئی ہوئی رسالت کو سنبھالنے کی بجائے اپنی خواہشات و اپنے مفادات اور دنیوی سکون و راحت کی خاطر اس رسالت کا حلیہ ہی مسخ کردیا جھوٹ و منگھڑت باتوں اور تصورات کو اختیار کرکے۔جس کے نتیجہ میں دنیا کی قیادت و سیادت کی ذمہ داری کا فرض منصبی ان سے چھین لیا گیا کیوں کہ وہ اخلاق حسنہ کو اختیار نہ کرسکے جو کہ وراثت میں منتقل نہیں ہوتے۔اس سب کے باوجود ممکن تھا کہ وہ انسان محنت و کوشش اور لگن کو اختیار کرلے اور دنیا میں بلند مقام حاصل کرلے یا پھر سستی و کاہلی کو چن کر پستی کا سامنا کرے۔

عرب آئے تو انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے اور اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس اہم ذمہ داری (رسات / دعوت)کو سینہ سے لگالیا اوراپنے پیغمبر کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔باوجود اس کے کہ نبی اکرمۖ زمانہ جاہلیت کی تمام بری عادات و روایات کا جڑ سے خاتمہ کرنے میں مصروف عمل تھے۔ حضورنبی کریمۖ کی وفات کے بعد بھی عربوں نے اشاعت اسلام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تاکہ یہ دین برحق محفوظ ہوجائے ۔اس دین متین کے ذریعہ انہوں نے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا ۔اپنے اخلاق فاضلہ کے ذریعہ وقت کی دوسپر پاور طاقتوں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرتے ہوئے ان کو شکست فاش دی۔عرب قوم نے تاریخ میں ایک مقام حاصل کیا حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اسلام نہ ہہوتا تو ان کو یہ مقام بلند کبھی نہ مل پاتا۔اسلام سے پہلے تو ان کے پاس نہ تو کوئی ثقافت تھی کہ وہ دنیا کو پیش کرسکتے ۔اسلام کا احسان عظیم کوئی بھی عرب باشندہ فراموش نہیں کرسکتا جھوٹ بولنے والے کے سوا۔

رومی تہذیب کی بات کریں تو ان کو عیسائیت کا مذہب ملا چوتھی صدی بعد عیسوی میں لیکن انہوں نے اس دین سے کچھ سبق حاصل نہ کیا بلکہ اپنی جبروتیت و طغیانیت میں مزید اضافہ کرتے گئے ۔اسی طرح یونانیوں نے عیسائیت کو چھوڑنے کے بعد فلسفہ کی ناسلجھنے والی گتھیوں میں ایسے الجھے کہ ان کو کچھ بھی مقام نہ مل سکا۔عرب تو وہ تھے جن کی اسلام سے پہلے کوئی شناخت نہ تھی اور وہ دائیں بائیں اپنے رزق کی تلاش میں رہتے تھے کہیں آسانی سے انہیں رزق مل جاتا تو کبھی سخت کوش حالات سے دوچار ہونا پڑجاتاتھا۔عرب نے جاہلیت میں کھٹیا رسوم و رواج اور عادات کو یقینا اختیار کررکھا تھا مگر بعثت اسلام کے بعدان کے اخلاق ایسے بدلے کہ وہ روشنی کے ایسے عالم میں داخل ہوگئے کہ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اسلام میں اس لیے داخل کرنے لگے کہ وہ اسلام کے بجز ہرشے کو ظلمت و تاریکی میں ڈوبا ہواسمجھتے تھے۔علامہ ابن خلدون مشہور مورخ نے بڑی کامیابی کے ساتھ عرب کے حالات کا جائزہ لیا اور منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عربوں نے جو سیاسی و تاریخی لحاظ سے وسعت و قبولیت پائی ہے وہ اسلام کی مرہون منت ہے کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور اب بھی عرب کا کوئی بادشاہ ثابت قدم و باقی نہیں رہ سکتا جب تک وہ نبی آخرالزمانۖ پر ایمان نہ رکھتاہواورکوئی بھی عرب ملک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس کے انگ انگ کی بنیاد میں اسلام کی روح موجود نہ ہو۔

عرب اپنی شخصیت کے احترام و اکرام کا محافظ رہے وہ عزت نفس کی حفاظت کے ساتھ سخت سے سخت ذمہ داریوں کو بھی نبھانے پر رضامند ہوجاتے۔ضروری ہے کہ انسان میں ایسے اخلاق موجود ہوجن سے تکبر و غرور کی جھلک تو نہ آتی ہوالبتہ اس کی عزت و عظمت بھی برقرار رہ سکے یہ امر قابل قبول ہے۔عربوں میں ایک بری عادت تھی کہ اگر ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوجاتی تو وہ اس کو معیوب سمجھتے تھے ،ان کو یہ خدشہ لاحق ہوجاتاتھا کہ یہ ہماری کمزوری ہے اور کہیں ہمارے دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔گویا بیٹیوں کی پیدائش کو ذلت کا مموجب سمجھتے تھے۔لیکن اسلام نے عربوں کے مذاج کو یک لخت ایساتبدیل کیا کہ اب عرب معاشرہ میں عورت کو عزت و شرافت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔زمانہ جاہلیت میں جن کو عرب اپنی فضیلت و افتخار کا موجب سمجھتے تھے اسلام نے ان کو برا و ناپسندیدہ قرار دیکر ان کے دلوںمیں انسان کا شرف و افتخار موجزن کردیا۔

عرب میں ایک یہ بھی مرض تھا کہ وہ اپنے نسب پر فخر محسوس کرتے تھے اس بناپر بہت سے لوگوں نے غلط بیانی سے اپنے نسبوں کو تبدیل بھی کرلیا ۔ جس کی اسلام نے مذمت کی ہے اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نسب تبدیل کرلیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے سوال نہ کیا جائے گا۔رسول اللہۖ نے جب لوگوں کو دیکھا کہ وہ نسب پر ایمان رکھتے ہیں تو آپۖ نے فرمایا کہ جو عمل میں کمزور ہے اس کواس کا نسب کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔بدقسمتی کی بات ہے کہ آج زمانہ جاہلیت کی عادات و تقالید دوبارہ زندہ ہوچکی ہیں۔آج کا مسلمان شریعت کا احترام نہیں کرتا اور نہ ہی عبادت کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز تیار کرتے ہیں کہ جس پر فخر کرسکیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ کھانا پینا ان کو پسند ہے جب کہ صنعت کاری و فن کاری سے تہی دامن ہوچکے ہیں۔اندلس کی تاریخ انسانوں کی وفاداری کی عظیم مثال ہے کہ انہوں نے عربوں سے زندگی کے امور میں سبقت حاصل کرنے کے گر سیکھے اور اندلس کو فتح کرلیا گیا۔ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں قاضی جو مغرب عربی میں مقیم تھے انہوں نے قانون انصاف کی تعلیم مسلمانوں سے حاصل کی۔سیکڑوں گورنروں اور بادشاہوں نے امور سیاست کی تعلیم مسلمانوں سے پائی۔لیکن آج مسلمان کہا ں کھڑا ہے ؟کیا مسلمانوں نے اپنا دین بدل دیا؟کیا وہ لہو و لعب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناچکے ہیں؟کیا آج زمین میں فساد کو فروغ دیدیا گیا ہے؟کیا ہو گیا ہے؟؟؟؟

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری