تحریر : صہیب سلمان ویسے تو آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے آپ سے پہلے والا دور جہالت اور بت پرستی کا دور تھا لیکن آپۖ نے لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔ اور اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کیطرف لے کر آئے زندگی کے ہر شعبے میں آپۖ نے اپنی اُمت کی رہنمائی کی اور یہ نہیں صرف بلکہ خود عملی طور پر کرکے دکھایا کیونکہ آپۖ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ اللہ کے حکم سے کرکے دکھاتے تھے۔ تاکہ میر ی اُمت کیلئے زیادہ مشکلات پیدانہ ہوں ، قرآن مجید میں ارشاد ہے ترجمہ(نبیۖ جو چیز تم کو دیں اُسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جائو)۔
آپۖ نے جس طرح اپنی اُمت کی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کی اسی طرح آپۖ نے اپنی اُمت کو سفر کرنے کے معمولات بھی بتائے۔حضرت ابنِ عمررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(اگر انسان کو اس چیز کا علم ہوجائے کہ تنہا سفر کرنے کے کیاکیا نقصا نات ہیں جس قدر کہ میں جانتا ہوں تو کوئی سوار رات کو تنہا سفر نہ کرے ۔اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)۔ حضرت عمروبن شعیباپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسولۖنے ارشاد فرمایاکہ(ایک سوار ایک شیطان اور دو سوار دو شیطان ہیں اور تین سوار قافلہ ہیں کیونکہ اب وہ ان برائیوں سے محفوظ رہے گے جس کا تنہا سفر میں احتمال ہو سکتا ہے)اس حدیث کو امام ا بودائود ،ترمذی اور نسائی نے اس حدیث کو اسائیہ صحیہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسولۖ نے ارشاد فر مایا ہے کہ(جب تین آدمی کسی سفر میں روانہ ہوں تو ان کو چائیے کہ اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کرلیں ۔امام ابودائوداسناد کیساتھ اس کو ذکر کیاہے۔ حضرت ابنِ عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسولۖ نے ارشاد فر مایاکہ (بہترین ساتھی وہ ہیں جو چارہوں اور بہترین چھوٹا لشکر وہ ہے جس میں چارسو آدمی ہوں اور بہترین بڑا لشکر وہ ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو اور بارہ ہزار کا لشکر کمی کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا۔ابودائود اور ترمذی نے کہاحدیث حسن ہے۔
Ka’b bin Malik
حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول ۖ غزوہ تبوک میں جمعرات کے روز نکلے تھے اور اُپۖ جمعرات کو سفر کرنا اور نکلنا پسند کرتے تھے اس حدیث کو امام بخاری ومسلم روایت کیاہے ۔اور بخاری ومسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ بہت کم ایساہوتاکہ رسولۖ باہر تشریف لے جاتے سفر وغیرہ میں مگر جمعرات کے دن۔ حضرت صخربن دواعتہ الغامدی الصحابی رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسولۖ نے فرمایا کہ اللہ میری اُمت کے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت عطافرما اور اُپۖ جب کبھی چھوٹا یا بڑا لشکر روانہ تو دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ فرماتے۔حضرت صخر تاجر تھے اور وہ اپنے تجارتی مال کو دن کے ا بتدائی حصہ میں فرماتے اور ان کے مال میں بہت اضافہ ہوا۔
آنحضرت محمدۖ کی عادت مبارکہ خود بھی یہی تھی کہ علی الصبح سفر پر روانہ ہوجاتے اور اُسی کا اپنی اُمت کو حکم دیا کیونکہ یہ خیروبرکت کا وقت ہوتاہے اور طبیعت میں بھی فرحت ہوتی ہے کام بھی وقت پر ختم ہو جاتا ہے۔