تحریر : حاجی زاہد حسین خان آج میرے سامنے محمد اعجاز عرف جھازی آن بیٹھا پریشان حال بکھرے بال درد، الم سے بھرا چہرہ کیا ہوا اعجازاور اس قدر پریشان اداس کیوں ہو کیا ہوا۔ حاجی صاحب دس بارہ ہزار کا سکیورٹی گارڈ ہوں گھر میں اپنے بیوی بچوں کے علاوہ چھوٹے بھائی اور والدہ پندرہ افراد کا کنبہ ہے۔ کمانے والے ہم دو ہیں تین لاکھ کا مقروض ہو چکا ہوں کہاں سے قرضہ ادا کروں گا۔ کہاں سے لائوں گا بھائی کیا ہوا۔
حاجی صاحب گزشتہ ہفتے چھوٹا بھائی جوراولپنڈی سول ملازمت کرتا تھا گھر چھٹی آیا اتفاقا باتھ میں گرا سر بیسن سے ٹکرایا اور گردن کے دو منکے کریک ہو گئے اٹھا کر ڈسٹرکٹ ہسپتال سدہنوتی لایا انہوں نے وقتی سہارا دے کر پٹی کر کے راولپنڈی کمپلیکس ہسپتال منتقل کر دیا وہاں پہنچنے پر کمپلیکس والوں نے کہا کہ یہ یہاں مہینہ پڑا رہے یہاں اس کا علاج نا ممکن ہے اور نیرو سرجن کے لئے سی ایم ایچ راولپنڈی ریفر کر دیا وہاں نیرو سرجن نے معائنہ کر کے فرمایا چار لاکھ کا خرچہ ہو گا۔ برداشت کر سکتے ہو تو ٹھیک ورنہ مریض کو اٹھاکر لے جائو۔ کسی نے دوسرے سرجن کے پاس جانے کا مشورہ دیا وہاں دوڑتا گیا ۔ اس موصوف نے ساڑھے چار لاکھ کا حکم سنایا واپس دوڑتا ہوا موصوف اول کے پاس آیا جی منظور ہے آپ ایڈمٹ کر لیں فوجی ڈاکٹر نے فرمایا تیس ہزار پیشگی جمع کروائو ورنہ داخلہ نا ممکن ہے۔ میرے پاس دس ہزارروپے تھے عرض کی ڈاکٹر صاحب باقی کل صبح جمع کروا دونگا۔ ڈاکٹر صاحب نے غصے میں فرمایا پیسے پہلے لائو ورنہ ہم نے یہاں فری کیمپ نہیں لگا رکھا بھائی درد سے کراہ رہا تھا۔
وہاں ہسپتال سے ایک دو واقف کا روں سے باقی کے پیسے پورے کئے تب داخلہ ملا بھائی درد سے کلبلا رہا تھا اور میں ان ڈاکٹروں کی سخت دلی پہ آنسو بہا رہا تھا۔ دو دن بعد ادھر ادھر دوڑ دھوپ کے بعد کچھ انسانیت دوستوں کی معاونت سے روپے جمع کئے دو لاکھ قرضہ سود پہ اٹھا یا ۔ اور پھر جمع کرا کر آپریشن کی ڈیٹ ملی آپریشن ہوا پلیٹ لگائی گئی ۔ بھائی پیروںپر کھڑا ہو گیا ۔ الحمدو اللہ مگر میرے پیروں تلے زمین کھسک رہی ہے۔ اتنا قرضہ کیسے کہاں سے ادا کرونگا۔ چلو وہ کسی نہ کسی طرح ادا ہو گا مگر ان فوجی ڈاکٹروں کے رویے نے جو کہ میرے ساتھ ہی نہیں ہر تیسرے غریب سول نادار مریض اور اسکے وارثوں سے کرتے ہیں۔ سنا تھا کہ ڈاکٹر مسیحا ہوتے ہیں زندگیاں بچاتے ہیں حوصلہ بڑھاتے ہیں مگر یہ تو جلاد ہیں ۔ روپے پیسے کی خاطرزندگیاں دائو پر لگاتے ہیں۔ قارئین ہسپتال فوجی ہیں یہ فوجی ہیں کیا یہ پاکستانی نہیں برٹش امریکہ کے گورے ہیں کیا سول غریب انسان نہیں پاکستان کے شہری نہیں وہ کہاں جائیں وہ پنشن کا پیاں کہاں سے لائیں وہ فر فر یہ داستان الم سناتا رہا اپنی آنکھوں سے اپنی بے بسی کے آنسو بہاتا رہا ۔ ساتھ مجھے بھی رولاتا رہا قارئین یہ تھا تصویر کا ایک رخ ۔ ان ہی دنوں ہمارے گائوں کے ایک دیہاڑی دار مزدور محمد رفیق عرف فیقا کو درد دل نے آن لیا اسے ہمارے ڈسٹرکٹ ہسپتال والوں نے شہباز شریف ہسپتال راولپنڈی ریفر کر دیا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی ایمر جنسی والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
ہنستے مسکراتے ڈاکٹر ز اسے آپریشن تھیٹر میں لے گئے نہ پیسے خرچے کا پوچھا نہ ایڈوانس کا مطالبہ فیقے کی ایک بند دل کی وال میں سٹیڈ ڈالا قیمت ایک لاکھ چالیس ہزار فیقا ہنستا مسکراتا گھر پہنچا اور اپنی داستان غریبی سنا بھی رہا تھا اور اسکی آنکھوں میں آنسو ان ڈاکٹروں اور عملے کے لئے تشکر کے آنسو بھی مگر جھاجی کے بے بسی بے کسی کے آنسو تھے اور فیقے کی آنکھوں میں تشکر اور شکرانے کے آنسو قارئین یہ تھا تصویر کا دوسرا رخ۔ مسیحا وہ بھی تھے اور مسیحا یہ بھی ۔ وہ روپے پیسے کیلئے کاروباری بن گئے۔ اور یہ انسانیت کی خدمت کر کے بشر کی معراج کو پہنچ گئے ان دونوں کرداروں نے مجھ سے اپیل کی کے حاجی صاحب آپ صدائے وطن کے نام سے حق سچ کی آواز بلند کرتے ہیں پرنٹ میڈیا میں ہماری آواز بلند کریں تاکہ آئندہ اللہ نہ کرے کوئی غریب مزدور سول سروینٹ ایسے حادثات کا شکار ہو تو شائد کسی کے دل میں رحم آجائے یہ سول ڈاکٹر ہیں یا فوجی سول ہسپتال ہیں یا فوجی سول حکمران ہیں یا فوجی ہمارے معاشرے کے ایسے بے رحم کرداروں ، ذمہ داروں ، حکمرانوں کو کچھ تو شرم آئے اور کسی غریب کا بھلا ہو کچھ شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے اپنا ملک اپنا معاشرہ اپنے لوگ مگر برتائو پرایوں جیسا ۔غیروں جیسا انسان دشمنوں والا انسانیت دشمنوں والا ۔ ان کو کنٹرول کرنے والا چیک اینڈ بیلنس رکھنے والا کوئی قانون نہیں نظام نہیں یہ مسیحیت کے نام پر کاروبار کرتے ہیں۔ کبھی غریبوں کے گردے نکالتے ہیں۔ بیچتے ہیں۔ کبھی بھاری بھرکم فیسوں کے ذریعے کبھی ہسپتالوں میں پرائیویٹ کلینکوں میں غریب پاکستانی شہریوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ اور کبھی غیر معیاری دو نمبر دوائوں کا اپنے ہی معاشرے میں زہر بانٹتے ہیں۔
عوام کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ اور خود ان کو ایک پیچش ہو جائے تو لندن امریکہ کے ہسپتالوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ عوام دشمن انسان اگر یہ ہیں تو ہمارے حکمران انتظامیہ عدلیہ کے ادارے بھی ان کے برابر کے شریک ہیں ۔ جو ان کو کنٹرول نہیں کرتے چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھتے سزائیں نہیں دیتے ۔ مگر یا د رکھیں قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے غریبوں مظلوموں کی آہیں سسکیاں یہ بے بسی کے آنسو عرش عظیم ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ خدا کے لئے غریب امیر سول فوجی مزدور کسان سرکاری ملازم یا سول ملازم کا امتیاز نہ برتیں یہ ہمارے ہی معاشرے کے کردار ہیں پاکستانی شہری ہیں۔
سول فوجی ہسپتال ان ہی کی وجہ سے اور سول فوجی حکومتیں ان ہی کی بدولت سے ہیں ۔ ہمیں یا د پڑتا ہے جدہ کے سب سے بڑے فوجی سرکاری عسکری ہسپتال کنگ فہد ہسپتال یا کنگ خالد ہسپتالوں میں حادثاتی طور پر پہنچنے والے مریضوں میں دنیا بھر سے آئے مزدوروں کو لیگل ان لیگل پاکستانیوں بنگالیوں کو ایمر جنسی میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا علاج ہوتا مریض کے شفا یاب ہونے پر پوچھا جاتا تم کہاں سے کیسے ہو اقامہ ہے نہیں ہے۔ قانونی غیر قانونی ۔ یہ ہوتا ہے حکمرانوں اداروں کا کردار اور حکومتوں کی ذمہ داری ۔ اور فرائض منصبی اللہ کرے ہمارے یہ سول فوجی ادارے ہسپتال حکمران اپنے اپنے فرائض منصبی پہچانیں خدمت انسانیت اور مسیحیت کے فرائضوں سے عہدہ براہ ہوں جھازی اور فیقے جیسے کرداروں کی بدعائیں نہیں دعائیں لیں۔ اور اپنے رب کے سامنے سرخرو ہوں آمین ثم آمین۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ فرشتے کیا کم تھے تابعداری کے لئے
Haji Zahid Hussain Khan
تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ hajizahid.palandri@gmail.com