تحریر : شفقت اللہ خان سیال میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا۔کہ جو ڈاکٹر ہوتاہے۔اس کو مسیحا کہتے ہیں۔جوکسی کی جان بچائے اس کو مسیحا کہتے ہیں۔جو ایک انسان کو کوئی بھی ہنر دے اور اس کو اچھا انسان بنا دے میری نظر میں اس کو کہانا چاہیے۔جو اپنے ماں باپ اور ملک پاکستان کی عزت کرتا ہو۔اور اس کی خدمت کرتا ہو۔میں نے سٹی ہسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر کی صورت میں مسیحا دیکھا ہے۔جو اپنے ادارے اور اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری سے کررہی ہیں۔جو شخص بھی اپنے ملک پاکستان اور اپنے ادارے سے انسانیت سے پیار کرتا ہو۔وہ میرے اللہ پاک کو بھی پسند ہے۔اور وہ مالک اس پرراضی ہوجاتا جس پر وہ مالک جس کے قبضہ میں میری اور کل کائنات کی جان ہے۔مجھ کو پاک ذات کی قسم ہے۔جس پر وہ راضی ہو جاتا ہے۔
دنیا وآخرت اس کے لیے آسان کردیتا ہے۔اس کو کوئی شخص بھی برا نہیں کہا سکتا۔اور یہ کسی کی جرات بھی نہیں۔اورپاکستان کے شہری ہو۔اور جس ادارے نے ان کو اتنی عزت دی ہو۔اور جس مالک نے اس کو مسیحا بناکراس دنیا میں اور پھر ایسے ادارے میں جہاں صرف انسان کی اور ادارے کی خدمت کرتا رہے۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔کہ اس کے مرنے کے بعد کوئی حساب کتاب ہو۔جب کہ اللہ پاک نے واضع طور پر فرما دیا ہے۔کہ میں اپنی تمام عبادات معاف فرما دونگا۔اس کو معاف نہیں کروں گا۔جس نے انسانیت کے ساتھ بھلائی نہ کی ہوگی۔میں حیران تو اس بات سے ہوکہ کسی بھی ادارے میں کام کرنے والاکو معلوم نہیں کہ اپنے ادارے سے ہم مخلص بھی ہیںکہ نہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ کوئی اچھا کام کر رہا ہو تو یہ کرپشن کرنے والے اس کو جینے نہیں دیتے۔یا اس کو اپنی طرح کا بنا لیتے ہیں۔یا پھر اس کا تبادلہ کروا دیا جاتا ہے۔آپ صرف جھنگ سٹی ہسپتال کا ہی حال دیکھ لے۔یہ ہسپتال کسی دور میں ڈسپنسری کی شکل میں تھا۔تقریبا اٹھارہ سال سے یہ سٹی ہسپتال کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔پہلے تو یہ ڈی ایچ کیو کی ایک شاخ ہوا کرتا تھا۔اب یہ ہسپتال بن گیا بڑی کوشش کرنے کی وجہ سے یہ 2009ء میں اس کا بجٹ علیحدہ ہوگیا۔ہر سال اس کا بجٹ توآتا ہے۔لیکن نہ جانے اس کو استعمال کہا کیا جاتا ہے۔ہسپتال جیسا تھا ویسے کا ویسے ہی ہے۔لیکن اس میں جو مسیحا بن کر آیا ہے ۔اس کی کوٹھی ضرور بن گئی اور جو اس ادارے کے کلرک ہے۔
Hospital
اس نے اپنی جائیداد ضرور بنالی ہے۔جس کے پاس کل تک اچھے کپڑے پہنے کی ہمت نہیں تھی۔آج وہ تھری پیس سے نیچے پہنتا نہیں۔کہ اس کا کوئی اور کام بھی ہے۔کیا اس نے چندہی دن میں ترقی کرلی ۔جس ملک پاکستان کا یہ ادارہ ہے۔وہ دن با دن قرض میں ڈوب رہا ہے۔اور یہ اپنے گھروں کو بھر رہے ہے۔سٹی ہسپتال میں کوئی ایماندار فرض شناش افسر کیوں نہیں لگایا جاتا۔کیا ای ڈی او ہیلتھ جھنگ کو معلوم نہیں کہ سٹی ہسپتال کا ایس ایم او اوراس کا کلرک کرپشن کرتے ہے کہ نہیں ۔ان کا آنے جانے والے مریضوں کے ساتھ سلوک کیسا ہے۔لیکن ناجانے وہ خاموش کیوں ہے۔30ء جون سے پہلے ہر سنٹر کے کلرکوں کی دوڑیں لگی ہوئی تھی۔کہ خزانے میں کوئی پیسہ واپس نہ چلا جائے۔30ء جون سے پہلے پہلے 2015ء اور2016ء کا بجٹ چٹ کرنا ہے۔کچھ کرنا پڑے ۔جس طرح سٹی ہسپتال کے ایس ایم او او رکلرک فرماتے ہیں۔ہم کوکون پوچھنے والا ہے۔یہ لوگ تو اللہ تعالی کی پکڑ سے بھی نہیں ڈرتے۔اس کے الفاظ ہے کہ جب تک میں ہسپتال رہو۔اس وقت تک جنریٹر چلنا چاہیے۔
میرے جانے کے بعد فورا بند کردیا کرو۔آج اس ایس ایم او کی جگہ کوئی نیک فرض شناش ایس ایم او ہوتا تو سٹی ہسپتال کو تحصیل ہیڈکواٹر کادرجہ مل جانا تھا۔مریض جو یہاں داخلے ہوتے ہیں ۔رات کو بجلی نہ ہونے پر جنریٹر نہ چلا نے اور ان کو پریشان کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے ڈی سی او صاحب جھنگ کو چاہیے کہ وہ سٹی ہسپتال کا بھی اچانک دورہ کرے اور جھنگ سٹی کے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاست چمکانے بجائے عملی کریں تاکہ جھنگ سٹی کی عوام کو پتہ چلے سیاست دان ہمارے لئے کیا کررہے ہیں ۔کہ وہ دوبارہ سٹی ہسپتال کا رخ نہ کرئے۔
جھنگ سٹی کی عوام نے احکام بالا سے مطالبہ کیا ہے کہ اس ایس ایم او اور کلرک کا فوری تبادلہ کیا جائے۔ہمیں تو لگتا ہے کہ یا تو جھنگ سٹی ہسپتال میں کوئی لگنے کو تیار نہیں یا ان کا دل نہیں کرتا کہ یہاں سے جانے کو ۔۔۔۔؟لگتا ہے کہ ان کی کرپشن منظر عام نہ آجائے جھنگ سٹی کی عوام مطالبہ ہے کہ 2009ء سے لیکر 2015ء تک کا تمام آڈٹ کردایا جائے تاکہ ان کا احتساب ہوسکے۔