تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پاکستان کے بطلِ جلیل مولانا عبدالستار ایدھی دُنیا سے رخصت ہوئے اور قوم ایک ایسے مسیحا سے محروم ہو گئی جو ہر دِل کی دھڑکن میں بستا تھا۔ موت سے مفر ممکن نہیں لیکن ایسی موت پہ ہزاروں زندگیاں قُربان جو ہر آنکھ کو اشکبار کر گئی۔ مرکز میں ایک روزہ سوگ کا اعلان ہوا اور صوبوں میں تین روز تک قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
ایدھی صاحب کی تدفین پورے قومی اعزاز کے ساتھ میٹھادَر میں اُسی لَحد میںکی جائے گی جس کاتعین وہ 25 سال پہلے ہی کرچکے تھے ۔ ایدھی صاحب کے جسدِخاکی کوآرمی کے چاک وچوبند دستے گارڈآف آنر پیش کریںگے اورتوپوںکی سلامی دی جائے گی، سندھ حکومت کی طرف سے پولیس سلامی پیش کرے گی ، نیوی اوررینجرزکے دستے جسدِخاکی کے اسکاٹ میںشامل ہوںگے ۔الیکٹرانک میڈیا کے مطابق انتظام وانصرام آرمی ، رینجرز اورکراچی پولیس نے سنبھال لیاہے ۔ ٹریفک پولیس کے 1000 جوان نیشنل سٹیڈیم تک ٹریفک کاانتظام سنبھالنے کے لیے متعین کر دیئے گئے ہیں اورسٹیڈیم میںنمازِ جنازہ کے سارے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں ۔ نیشنل سٹیڈیم میںجامعہ نعیمیہ کے مفتی جان محمد نعیمی اُن کی نمازِجنازہ پڑھائیںگے اوریوں خلقِ خُداسے والہانہ محبت کرنے والے اُس ”عاشقِ صادق” کاجنازہ اِس دھوم سے نکلے گا کہ رہتی دنیاتک یاد رہے گا۔
Abdul Sattar Edhi-Funeral Prayers
صدرِ مملکت ، وزیرِاعظم ، آرمی چیف ، قائدِ حزبِ اختلاف اور کپتان صاحب سمیت سیاسی ، سماجی اورمذہبی رہنماؤںنے اُنہیںبھرپور خراجِ تحسین پیش کیا لیکن جوخراجِ تحسین پوری قوم نے پیش کیا ، وہ بے مثل کہ ہردِل دُکھی اورہر آنکھ پُرنَم ۔ وزیرِاعظم نے اُنہیںنشانِ امتیاز سے نوازتے ہوئے کہاکہ وہ پاکستان کاحقیقی سرمایہ تھے اور سپہ سالارنے اُنہیںعظیم انسان قراردیا ۔ حقیقت یہی کہ بابائے قوم کے بعد”بابائے خدمت” ہی وہ واحد انسان تھے جس سے پوری قوم والہانہ محبت کرتی تھی ، کرتی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی ۔ مولانا عبدالستار ایدھی سے والہانہ محبت کی وجہ توبس ایک کہ اُن کے اندر خدمتِ خلق کابحرِبے کنار موجزن تھااور وہ یہ بھی پسند نہیںکرتے تھے کہ کوئی اُن کی خدمات کوسراہے ۔ شاید اُنہیںحضورِاکرمۖ کا یہ فرمان ازبَرتھا کہ اگردائیں ہاتھ سے دوتو بائیںکو خبرنہ ہو۔ وہ تواِس شعرکی عملی تصویرتھے کہ
خُدا کے بندے تو ہیں ہزاروں ، بَنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو ، خُدا کے بندوں سے پیار ہو گا
حضرت ابراہیم اُدھم کا واقعہ یادآیا ۔ ایک رات اُنہوںنے ایک فرشتے کودیکھا جو ایک نورانی کتاب پرکچھ تحریر کررہا تھا ۔ حضرت ابراہیم اُدھم نے فرشتے سے سوال کیاکہ وہ کیالکھ رہاہے ۔ فرشتے نے جواب دیا”اُن لوگوںکے نام لکھ رہاہوں جنہیں اللہ سے پیارہے ”۔ اُنہوںنے پوچھا ”کیا میرانام بھی اِن میںہے؟”۔ فرشتے نے جواب دیا ”نہیں”۔ حضرت ابراہیم اُدھم نے کہا ”میرانام اُن لوگوںکی فہرست میںلکھ دیںجنہیں اللہ کے بندوںسے پیارہے ”۔ فرشتے نے اُن کانام لکھااور غائب ہوگیا ۔ اگلی رات وہ فرشتہ پھرنازل ہوا ۔ اُس کے ہاتھ میںایک نورانی فہرست تھی ۔ حضرت ابراہیم نے اُس فہرست کے بارے میںاستفسار کیاتو جواب ملا”یہ اُن لوگوں کی فہرست ہے جن سے اللہ پیارکرتا ہے”۔ اُنہوںنے پوچھا ” کیااِس میں میرانام بھی ہے؟”۔ فرشتے نے مسکراکے جواب دیا”اِس میںسب سے پہلانام آپ ہی کا ہے۔
محترمہ بلقیس ایدھی نے اشکبار آنکھوںسے کہا کہ آخری وقت میںبھی مولانا عبدالستار ایدھی ”ایدھی فاؤنڈیشن” جاکر خدمتِ خلق کے لیے بے چین تھے ۔ کیا عجب مردتھا کہ دَمِ واپسیں اپنے بیٹے فیصل ایدھی کوپاس بلایااور اُس کے کان میںوصیت کی کہ اُنہیںزیبِ تَن لباس میںہی دفن کیاجائے اور تمام اعضائے جسمانی عطیہ کردیئے جائیں ۔ رحلت کے بعد ڈاکٹروںنے جسدِ خاکی کامعائنہ کیاتو پتہ چلاکہ سوائے آنکھوںکے باقی سب کچھ تووہ خدمتِ خلق کی نذرپہلے ہی کرچکے ۔ کتنے خوش نصیب ہوںگے وہ دو اشخاص جودُنیاکو مولانا عبدالستار ایدھی کی آنکھوںسے دیکھیںگے ۔ بابائے قوم یادآئے کہ اُنہیںبھی معالج اُن کی جسمانی حالت کے بارے میں بہت پہلے آگاہ کرچکے تھے لیکن اُنہوںنے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کوسختی سے منع کررکھا تھا کہ اُن کے نزدیک تشکیلِ پاکستان کے مشن کے سامنے اُن کی زندگی کی کوئی قدروقیمت ہی نہ تھی۔
Edhi Foundation
مولانا عبدالستار ایدھی ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ اُن کے والد بھارتی گجرات میں کپڑے کے تاجرتھے ۔ وہ 28 مئی 1928ء کوپیدا ہوئے ۔ 1947ء میںتشکیلِ پاکستان کے بعد اُن کاخاندان ہجرت کرکے کراچی چلاآیا تومولانا نے روزی روٹی کے لیے ”ٹھیلا” لگالیا ۔ 1951ء میںاُنہوںنے اپنی ساری جمع پونجی (5000 روپے) سے کھارادَر میںایک ڈاکٹرکی مددسے ڈسپنسری قائم کی اورخدمتِ خلق میں جُت گئے ۔ اُس وقت خدمتِ خلق کے عشق میںڈوبے مولانا عبدالستار ایدھی کایہ عالم تھاکہ وہ رات کوڈسپنسری کے باہر مریضوںاور اُن کے لواحقین کے لیے رکھے گئے بنچ پرہی سوجاتے تاکہ رات کے کسی بھی پہرکوئی مریض آئے تواُس کے لیے آسانی ہو ۔ پھرپیسہ پیسہ جمع کرکے مولانانے وہ عمارت خریدلی جس میں ڈسپنسری قائم تھی اوروہاں ”ایدھی فاؤنڈیشن” قائم کی۔
امانت کایہ عالم کہ ساری زندگی فاؤنڈیشن کے لیے حاصل کیے گئے عطیات میںسے کبھی ایک پیسہ بھی اپنی ذات پرخرچ نہیںکیا ۔ سادا کرتہ شلوارپہننے والے ایدھی صاحب نے ایک وقت میںکبھی دوجوڑے لباس سے زیادہ اپنے پاس نہیںرکھے ۔ 20 سال پہلے جوتے خریدے اورپھر وقتِ ضرورت اُنہی کی مرمت کرواکر پہنتے رہے ۔ 5000 روپے سے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے خدمتِ خلق کاسفر شروع کرنے والی ایدھی فاؤنڈیشن آج ملک کے کونے کونے میںپھیل چکی ہے ۔ مولانانے جب پہلی ایمبولینس خریدی تواُس کے ڈرائیوربھی وہ خودہی تھے ۔ آج اُن کی 600 سے زائد ایمبولینسز ملک کے کونے کونے میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
پاکستان میںخدمتِ خلق کی آڑ میںبہت سی نام نہاد NGO’s کام کررہی ہیں ۔ اِس میںکوئی شک نہیںکہ اُن میںسے کچھ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار بھی ہیںلیکن وہ ہیںکتنی؟۔ محض انگلیوںپہ گنی چند ۔۔۔۔ باقی سب کاروباری ، محض کاروباری ،قوم کی آنکھوںمیں دھول جھونک کرپیسہ اکٹھا کرنے والی۔ خدمتِ خلق تونام ہے ”ایدھی فاؤنڈیشن” کااوربے لوث عبدالستار ایدھی کا ،جس کاجسدِخاکی آج پکار پکارکے کہہ رہا ہے کہ ”ہم ساہو تو سامنے آئے۔