تحریر : زاہد محمود اہلیان راولپنڈی اور اسلام آباد آئندہ چند دنوں میں ایک منصوبہ جسکی بڑی دھوم ہے سے مستفید ہونے جا رہے ہیں جو کہ” میٹرو بس ” کے نام سے جانا جاتا ہے اور عوام کی اکثریت اسے دیکھنے کو بے تاب ہے حکومت وقت اسے اپنی حکومت کا اہم ترین منصوبہ قرار دے رہی ہے اس منصوبہ کے مخالفین بھی بہت زیادہ تنقید کر رہے ہیں جہاں حکومت اسکی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتی وہیں اسکے مخالفین بھی بڑھ چڑھ کر حکومت پر تنقید کر رہے ہیں لیکن آج کوشش کرتے ہیں کہ ان پہلوؤں پر بات کی جائے جن پر بات ابھی تک کسی فورم پر نہیں کی گئی اور اگر کی گئی تو عوام تک اس حد تک نہیں پہنچی جس حد تک اس کی ضرورت تھی یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اس منصوبے کے حوالے سے جو بھی بات کی جائے گی ملکی وسائل اور عوامی مسائل کو سامنے رکھ کر کی جائے گی اور اسکو کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت پر مبنی کالم نہ سمجھا جائے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق راولپنڈی سے اسلام آباد روزانہ تقریبا تین لاکھ کے قریب اپنے روزگار کے سلسے میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں ( محتاط اندازہ اس لئے کہ باوجود میری کوشش کے مجھے کسی بھی ریاستی ادارے سے کوئی مصدقہ اندازہ نہیں مل سکا لہٰذا اپنی طور پر حاصل کی گئی معلومات کے بل بوتے پر یہ تعداد لکھی ہے ) اور جو حال پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے لوگوں کا ہوتا ہے اور جس قسم کی ذہنی اذیت سے انھیں گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ کسی شریف النفس آدمی کو تقریبا ایک ہفتہ تک بلا ناغہ راولپنڈی سے اسلام آباد سفر کر کے ہی ہو سکتا ہے اپنی ذاتی گاڑیوں پر سفر کرنے والا طبقہ اس اذیت سے ” مستفید ” نہیں ہوسکتا یہ سہولت صرف نچلے متوسط طبقے اور غریب آدمی کے لئے ہے لہٰذا اس شہر کو ایک ایسے منصوبے کی اشد ضرورت تھی کہ جس سے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے طبقے کے مسائل میں کمی لائی جا سکتی
لہٰذا حکومت وقت نے اس تین لاکھ کے قریب لوگوں کی ” فلاح و بہبود ” کے لئے ایک عظیم الشان منصوبے کا اعلان کیا جس پر لگ بھگ پچاس ارب روپے کا کثیر سرمایہ کی لاگت آئے گی اور عوام کے مسائل کے حل کی اتنی جلدی کہ اس منصوبے کا ‘ ‘ پی سی ون ” تک نہیں بنایا گیا اس منصوبے کے ذریعے کتنے لوگ سفر کریں گے ابھی تک صرف اندازے ہی ہیں ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس کے لیئے 54 بسیں منگوائی گئی ہیں تو ان محدود بسوں کے ذریعے کتنے مسافر اپنی منزل مقصود تک پہنچ پائیں گے ؟ کتنے لوگوں کو 50 ارب روپے لگانے کے بعد روزگار ملے گا ؟ کیا باقی ٹرانسپورٹ اپنی جگہ چلتی رہے گی ؟ کیا یہ منصوبہ پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کر پائے گا ؟ اور اگر نہیں حل کر پائے گا تو جو لوگ اس کے علاوہ سفر کریں گے انکے لئے کونسا منصوبہ ہے ؟ اس منصوبے کو جتنی سبسڈی دی جارہی ہے کیا اس سے پوری پنڈی شہر میں فری ٹرانسپورٹ سروس شروع نہیں کی جا سکتی تھی ؟ کیا اگر صدر سے فیض آباد تک ” ایک سگنل فری نئی سڑک بنا دی جاتی جو کہ مری روڈ کے اوپر سے گزرتی توکیا یہ ایک بہتر منصوبہ نہیں تھا ؟
Metro Bus
اس بس کا روٹ اگر سیاحتی مقامات کے نزدیک سے بھی گزارا جاتا تو کیا اس سے سیاحت کے فروغ میں مدد نہیں مل سکتی تھی کیونکہ شام کو پنڈی سے اسلام آباد جانے والے ملازمین کی تعدا د بہت کم رہ جاتی تو سیاحتی مقامات کی طرف جانے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی تو لوگوں کی زیادہ تعداد اس منصوبے سے مستفید ہو سکتی تھی ۔ اس روٹ کے درمیان جتنے سکول و کالج اور ہسپتال آتے ہیں ان سب کا تفصیلی معائنہ کیا جائے اور جائزہ لیا جائے کہ اس منصوبہ کی زیادہ ضرورت تھی یا ان تمام سکولوں ،کالجوں ، ہسپتالوں میںمطلوبہ سہولیات مہیا کرنے کی زیادہ ضرورت تھی ۔ پنڈی کے مسائل کا اگر اندازہ کیا جائے تو آباد ی کے تناسب سے سرکاری کالج بہت کم ہیں کیا اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے ؟ پینے کا صاف پانی اس شہر کے باسیوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیا اس مسئلے کے حل کو بھی کوئی اہمیت دی جائے گی ؟
یہاں ایک بات میں مزید واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق فی کلومیٹر لاگت 28لاکھ ڈالر اور اس منصوبے پرہماری لاگت 18 کروڑ ڈالر لاگت کیوں آ رہی ہے کیا کسی نے اسکا جواب لینے کی کوشش کی ؟ کسی فورم کے اوپر یہ بات ہوئی کہ ہم اس لاگت کو کیسے کم سے کم کر سکتے ہیں کیا اس منصوبے کے متبادل کسی منصوبہ پر بھی غور و فکر کیا گیا تھا اور اس غور و فکر کے بعد اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا ؟ ہمارے ملک کو کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ اچھے منصوبوں کی ضرورت ہے نہ کہ وسائل کا اس طرح کے منصوبوں میں جھونکا جانا ایک ٹرین سروس جو کہ علیحدہ سے چلائی جاتی اور ایک نئی پٹری بچھا دی جاتی تو نہ صرف ریلوے کو بہت زیادہ فائدہ ہو سکتا تھا بلکہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں سفر بھی کرتی جہاں تک مجھے نظر آتا ہے
اس منصوبے کے ذریعے54بسوں پر اگر 2 لاکھ لوگ سفر کریں گے تو وہ انگریزی کا suffer تو ضرور ہوگا اردو والا سفر نہیں کیونکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگوں کی سفری ضروریات لاہور اور کراچی کی سفری ضروریات سے مختلف ہیں ۔ یہ منصوبہ اپنے پایئہ تکمیل تک پہنچنے کو ہے اس میں زیادہ سے زیادہ بہتری لائی جائے اور مزید اس طرح کے منصوبے بنانے سے پہلے ایک تھنک ٹینک بنایا جائے جو کہ ایسے کثیر سرمائے والے منصوبوں پر سیر حاصل بحث کرے اور متبادل ذرائع اور رائے سامنے آئے کیونکہ یہ عوام کے دیئے ہو ئے ٹیکسوں کا پیسہ ہے اور وہ ایک ایک روپیہ اس قوم کی امانت ہے اسکا استعمال صحیح اور مناسب جگہ پر کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔