ِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف لاہور میں سائوتھ ایشیا لیبر کانفرنس کی تقریب میں ابھی سٹیج پرآکر بیٹھے ہی تھے کہ پریس گیلری میںبیٹھے نجی ٹی وی چینل کے صحافی نے ان کی طرف جوتا اچھال دیاخوش قسمتی سے وزیر ِاعلیٰ اس کی زدمیںآنے سے بال بال بچ گئے اور جوتا سٹیج پر گرگیا۔
جوتااچھالنے کے بعد مذکورہ صحافی نے شورمچایا کہ حکومت صحافیوںپر حملے کرنے کے ذمہ داروںکے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ان کی حمایت کررہی ہے۔ تقریب کے اختتام پرپولیس نے صحافی کو حراست میں لے لیا جسے بعدمیںوزیر ِاعلیٰ پنجاب میاںشہبازشریف کے حکم پررہا کردیا گیا اس سے پہلے سابق امریکی صدر جارج بش، برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈکیمرون، امریکہ کی سابق خاتون ِ اول ہیلری کلنٹن، ایرانی صدر احمدنژاد، مقبوضہ کشمیرکے کٹھ پتلی وزیر ِ اعظم عمر عبداللہ، بھارتی عام آدمی پارٹی کے رہنما اروندکیجریوال،سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اورسابق صدر پرویز مشرف بھی اس صورت ِ حال سے دو چارہوچکے ہیںاس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل معروف قانون دان احمد رضا قصوری کے چہرے پرکسی نے کالے رنگ کا سپرے کردیا تھا سابقہ وزیر مرحوم شیر افگن نیازی اورسینیٹر طارق عظیم کی بھی پٹائی ہو چکی ہے۔
یہ سب واقعات معاشرہ میںعدم برداشت کی نشان دہی کرتے ہیں وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاںشہبازشریف کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انتہائی سنگین کہا جا سکتاہے سائوتھ ایشیاء لیبرکانفرنس کی تقریب میںآنے والے ملکی بالخصوص غیر ملکی مندوبین کو ہم نے کیا میتتج(Message) دیاہے اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب نہیں ہوا بلکہ شدید بدنامی بھی ہوئی ہے سوچتاہوں کاش یہ واقعہ نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا ماضی میںکسی سیاسی جلسے یا جلوس کو ناکام بنانے کیلئے گندے انڈے یا ٹماٹر مارنے کا رواج تھا اسے بھی بڑا واقعہ شمار کیا جاتا تھا اب تو جوتے مارنے کا کلچر فروع پارہاہے جو انتہائی خوفناک رویے کا عکاس ہے میں تو اسے انتہا درجے کی بدتمیزی سے تعبیر کرتاہوںویسے سوچنے کی بات بہ ہے کہ مذکورہ صحافی نے جوتا اچھال کرصحافت کی کون سی خدمت کی ہے؟ غالب نے تو کہا تھا ہر اک بات پہ کہتے ہو تو کیا ہے؟ تمہی کہو ۔۔یہ انداز ِ گفتگوکیاہے؟
Tolerance
آج غالب زندہ ہوتے تو اس بدتمیزی اور بد تہذیبی پر نہ جانے کتنے شعر لکھ ڈالتے لیکن بیشتر لوگوں نے تو اس واقعہ کو یقینا چٹخارے لے لے کر بیان کیا ہوگا لیکن اس سے صحافیوں کی سبکی ہوئی ہے ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ برداشت ،تحمل ، مروت ،بردباری اوردرگذرکرنا شاید پرانے زمانے کی باتیں ہیں اب تو زیادہ تر لوگوںمیں قوت ِ برداشت کم ہوتی جارہی ہے جس کے باعث بات بے بات پر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں معمولی” تو تو میں میں”پر اسلحہ نکل آتاہے۔
کبھی برداشت ،تحمل ، مروت سیاستدانوں، صحافیوں ،سرکاری و غیر سرکاری افسران اور بیوروکریٹ کا خاصا ہوتا تھا دور ِ حاضر میں لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اس ماحول میں جب وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ضبط کاامتحان بھی تھا موصوف نے جوتا اچھالنے والے صحافی کو معاف کرکے یقینا ایک اچھی روایت قائم کی ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے میری دانست میں صحافی کو ایک آئینہ کا کردار اداکرنا چاہیے کہ یہی ایک ایسی چیزہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتی آئینے کے سامنے جو کچھ بھی ہوتاہے سچ ہوتاہے صحافی کا پرسنل ہونا اس کے عظیم پیشہ کے وقار کے منافی ہے۔۔۔مرحوم غلام حیدروائیں کہا کرتے تھے۔
قوت ِ برداشت نہ ہو تو سیاست چھوڑتا زیادہ بہترہے ۔۔ہم نے کئی پریس کانفرنسوںمیں مزاج کے خلاف سوال کرنے پر کئی سیاستدانوںکو سیخ پاہوتے دیکھاہے کئی اس قدر غصے میں آجاتے ہیں کہ وہیں کھڑے کھڑے صحافیوںکو بے نقط سنا دیتے ہیں۔پاکستان میں صحافیوںنے آزادی ٔ صحافت کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں اب تلک درجنوں صحافی پیشہ وارانہ ذمہ داریوںکو بجالاتے ہوئے شہیدہو چکے ہیں اب تازہ ترین حامدمیرپر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ خدا کا شکرہے بال بال بچ گئے۔
آزادی ٔ صحافت کیلئے قربانیوںکا تقاضاہے کہ صحافی اپنی ذمہ داریوںسے انصاف کریں محض خبر بنانے کے چکرمیں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے اس شعبہ کی سبکی ہو۔بہرحال مملکت ِ خدادادپاکستان میں جوتا مارنے کے کلچرکو سختی سے کچلنے کی ضرورت ہے اس مکروہ فعل سے آزادی ٔ صحافت کو بہت سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیںیہ کام اظہارِ رائے کی آزادی کا بھی دشمن ہے مذہبی نقطہ نظر سے انتہائی گھنائونا کام ۔۔
۔پست اور گھٹیا سوچ کا مظہر۔خوفناک بات یہ ہے کہ جوتے مارنے کی رسم چل نکلی تو کل کلاں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا مذہبی رہنما، سیاستدان، سماجی شخصیات، صحافی یا پھر کوئی بھی اس جوتا گردی کا شکار ہو سکتاہے۔لوگ اپنے کسی بھی مخالف کو جوتے مارکر ذلیل کرسکتے ہیں اس صورت میں اتنی انارکی پھیلے کی جس کا اس وقت اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔