انتقال اقتدار کا معاملہ بھی احسن طریقے سے انجام کو پہنچ چکا اور یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا خوش نصیب دورہے کہ ایک جمہوری حکومت دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کر رہی ہے ۔ اور اب وفاق میں میاں صاحب ایک مضبوط اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم ہونگے اور چندحلیفوں کو ملا کر قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد190 کے قریب پہنچ چکی ہے جو کہ دو تہائی اکثریت بنتی ہے ۔ امید تو یہی کی جارہی ہے کہ میاں صاحب نے ماضی سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اس بار میاںنواز شریف پہلے سے بہت مختلف نظر آئیں گے جو کہ اُن کے انداز سے نظر آرہا ہے کہ وہ اب خاصے محتاط ہوکر چل رہے ہیں۔ لیکن ایک بات جو کہ مایوسی کا سبب بن رہی ہے کہ فصلی بیٹروں نے میاں صاحب کو پھر سے اپنے گھیرے میں لینے کی کوششیں شروع کردی ہیں ‘ یہ وہی لوگ ہیں۔
جنہوں نے ماضی میں نواز شریف کے قصیدے پڑھے اور جب میاں نواز پر برا وقت آیا تو یہ جاکر ڈکٹیٹر کی گود میں بیٹھ گئے اور جب ڈکٹیٹر کی چھٹی ہوئی تو اُڑان بھر کر پیپلز کی گود میں بیٹھ گئے اور اب ایک بار پھر ہوا کا رُخ دیکھ کر دوبارہ میاں صاحب کے قصیدے پڑھنے شروع کردئیے ہیں ۔لیکن قابل افسوس بات ہے کہ ان لوگوں نے آہستہ آہستہ میاں صاحب کو رام کرنا شروع کردیا ہے ۔کاش میاں صاحب اس بار ماضی کی کوئی بھی غلطی نہ دہرائیں اور عوام نے جو بھرپور اعتماد ان پر کیا ہے یہ اس کو احسن طریقے سے پورا کریں(آمین)۔ ایسے ابن الوقت اور مفاد پرستوں کی قطار دیکھ کر مجھے حضرت واصف علی واصف کی حرف تحریر کا ایک پیرا گراف ذہن میں گھومنے لگا کہ ”شاہین نے گدھ سے کہا “دیکھو اس دنیا میں ذوقِ پرواز کے علاوہ اور کوئی بات قابلِ غور نہیں” گدھ نے بھی تکلفاً کہہ دیا۔
ہاں مجھے بھی پرواز عزیز ہے میرے پَر بھی بلند پروازی کے لئے مجھے ملے” لیکن کچھ ہی لمحوں بعد گدھ نے نیچے دیکھا اسے دور ایک مرا ہوا گھوڑا نظر آیااس نے شاہین سے کہا “جہنم میں گئی تمہاری بلند پروازی اور بلند نگاہی مجھے میری منزل پکار رہی ہے اتنا کہہ کر گدھ نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور اپنی منزلِ مردار پر آ گرا فطرت الگ الگ تھی، منزل الگ الگ رہی ہم سفر آدمی اگر ہم فطرت نہ ہو تو ساتھ کبھی منزل تک نہیں پہنچتا”۔سو محترم میاں صاحب کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ تباہی اور بربادی کا پہلا نشان ایسے مفادپرستوں کا ٹولہ ہوتا ہے جو مصاحب کو اپنے جال میں اس طرح پھنسا لیتا ہے کہ آس پاس کچھ نظر نہیں آتا اور جب نظر آتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور بدفطرت لوگوں کے ساتھ کبھی منزل مقصود حاصل نہیں کی جاسکتی۔
Nawaz Sharif
میاں صاحب نے الیکشن میں بہت سے وعدے کئے اور انہوں نے انتخابی مہم کے دوران بارہا یہ الفاظ دہرائے کہ آپ مجھے سادہ اکثریت دیں دے میں آپ کے تمام مسائل حل کرونگا ۔جس میں بجلی کے بحران کے حل کا کئی بار تذکرہ کیا ۔اور عوام نے میاں صاحب کے سادہ اکثریت سے ایوان میں پہنچا دیا۔ عوام کو میاں صاحب سے بہت سی توقعات ہیں جن میں بجلی کا بحران جو اس وقت اُم المسائل ہے اس کے بعد دہشت گردی پھر صحت و تعلیم اور روزگار کی فراہمی ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہونے کی اُمید پر لوگوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دئیے ,یاد رکھئیے گا اب کی بار عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور ماضی کے حکمرانوں کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ بجلی کے بحران نے اس ملک کو دہشت گردی سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے کیونکہ عوام کی اکثریت بے روزگار ہو چکی ہے اور سخت ذہنی امراض میں مبتلا ہوچکی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ہر دوسرا بندہ ڈپریشن کا شکار ہے ۔اور ان تمام مسائل کی جڑ روزگار کا مواقع نہ مہیا ہونا اور اُس پر بجلی کے بحران نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔جس کی بناء پر ایک کثیر تعداد جو باروزگار تھی بے روزگار ہوگئی اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی اور جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ۔ بقول منٹو ”بھو ک کسی قسم کی بھی ہو خطر ناک ہوتی ہے ۔آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا۔ روٹی کے بھوکے اگر فاقے ہی کھینچتے رہیں تو وہ دوسروں کا نوالہ ضرور چھینیں گے ۔مردکی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو شاید وہ اپنے ہم جنسوں اور حیوانوں میں ہی اس کا عکس دیکھنے کی کوشش کریں۔سو دنیا میں جتنی بھی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے ۔بھوک گدا گری سکھاتی ہے بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے، بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے۔
Musharraf
اس کا حملہ بہت شدید اس کا وار بہت پھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے ۔بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے ۔ دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی ”۔ تو میاں صاحب یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا آپ نے مقابلہ کرنا ہے اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دینا پڑے گا ورنہ یہ بھوک جو دیوانے پیدا کرے گی تو اپنے ساتھ سب کچھ لے ڈوبے گی۔ ویسے بھی غرور تکبر دو ایسی چیزیں ہیں جو اگر کسی انسان کے اندار سما جائے تو اُسی وقت سے انسان کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ روالپنڈی کے ایک زیرک اور اپنے دور کے انتہائی بااثر سیاست دان جن کا کوئی بھی مدمقابل دور دور تک نہیں تھا اور میاں صاحب سے لیکر مشرف تک راولپنڈی کے تمام فیصلے اُن موصوف کی مرضی کے بنا نہیں کئے جاتے تھے مگر پھر سورج غروب ہوا اور 2008 سے لیکر 2 ضمنی الیکشن میں انتہائی بُری شکست سے دوچار ہونا پڑا کہ ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں۔ اُن کو آج کل مختلف چینلز میں اینکر ز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے 2008 کے بعد تو لگتا تھا۔
انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہوگا مگر مجھے محمد مالک اور عاصمہ شیرازی کے پروگرام دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لگتا ہے موصوف نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور اپنی جیت اُن سے ہضم نہیں ہوپارہی ۔اور وہی 2008 جیسا پرانا انداز گفتگو اور پہلے سے زیادہ غرور اور تکبر کی واضح جھلک نظر آئی جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ قطعی مناسب نہیں ۔انداز بتا رہے تھے کہ یہ کوئی سیاسی الیکشن نہیں شاید کہیں نہ کہیں کوئی ذاتی وجہ عناد بھی نظر آتی ہے ۔حقیقت تو وہ موصوف یا اللہ ہی جانتا ہے مگر مجھے یہ انداز گفتگو دیکھ کر حقیقی معنوں میں خوف خدا آیا کہ ہمارے بڑے بول ہی ہمارے سامنے آتے ہیں مگر ہم ان سے کچھ نہیں سیکھتے۔
اور بھی بہت سے ایسیعوامی نمائندے ہیں جو 11 مئی سے پہلے ایک مختلف انداز میں نظر آتے تھے مگر الیکشن میں کامیابی کے بعد اُن کے تیور ہی بدل گئے جس پر مجھے ابلیس کی تاریخ یاد آگئی کہ وہ اللہ کا ایک ایسا مقرب فرشتہ ہواکرتا تھا کہ 80 ہزار سال تک ملائک کا ساتھی رہا چار ہزار سال تک جنت کا خزانچی بیس ہزار سال تک ملائک کو وعظ سناتا رہا تیس ہزار سال تک مقربین کا سردار 14 ہزار سال تک عرش کا طواف کرتا رہا پہلے آسمان پر اُسکا نام عابد دوسرے پرے زاہد تیسرے پر بلال چوتھے پر والی پانچویں پر تقی چھٹے پر خزائن اور ساتویں پر عزازیل اور اب لوح محفوظ میں ابلیس ہے صرف غرور اور تکبر سے اُسے کیا سے کیا بنا دیا۔