اسلام آباد (جیوڈیسک) احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے پر 6 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے والے شخص میاں طارق ملک کو گزشتہ روز ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ملزم میاں طارق محمود کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ دبئی فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
جج ارشد ملک کی وزارت قانون کے ذریعے ڈی جی ایف آئی اے کو درخواست پر دائر مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وہ 2000 سے 2003 کے درمیان ملتان میں بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تعینات تھے، میاں طارق نے انہیں ورغلا کر نشہ آور چیز کھلائی اور ان کی خفیہ ویڈیو بنا لی، پھر اس میں ردوبدل کر کے غیر اخلاقی ویڈیو بنا ڈالی۔
ارشد ملک کی درخواست کے مطابق غیر اخلاقی ویڈیو مسلم لیگ (ن) کے میاں رضا کو فروخت کی گئی، پھر ویڈیو کی بنیاد پر ناصر بٹ، ناصر جنجوعہ، خرم یوسف اور مہر غلام جیلانی نے دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ نواز شریف کی مدد کریں اور ان کی مرضی کے الفاظ بولیں۔
جج ارشد ملک نے مریم نواز اور شہباز شریف کے خلاف بھی کارروائی کی درخواست کی اور کہا کہ ان افراد نے ٹیمپرڈ وڈیو چلائی اور اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔
6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔
تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی، فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔
اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔
ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کر دیں۔
اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔
جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔
بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔
ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر 16 جولائی کو سماعت ہوگی۔ اس حوالے سے تین رکنی بنچ قائم کیا گیا جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال شامل ہیں۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔