تحریر : ایم آر ملک اسے انفرادیت پسندی کے خلاف اجتماعی اکٹھ کی فتح قرار دیا جا سکتا ہے سرمایہ دارانہ آمریت کے خلاف یہ کسی زلزلے، کسی آتش فشاں، کسی ناگہانی آفت کی ابتدائی نشانیاں ہیں یہ تحریک وطن عزیز کی تاریخ کے ایک بالکل نئے عہد کا اعلان ہے اسے ہم عہد انقلاب کا عہد ہی کہہ سکتے ہیں جس میں ضرورت اپنا اظہار چاہ رہی ہے اور منزل کو رستے کی تلاش ہے تبدیلی وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن کر سامنے آرہی ہے اور ایسا ہم اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ 68 برسوں سے مسلط آمرانہ جمہوریت کے پاس اب مسائل کا حل نہیں رہا پسا ہوا طبقہ قدرے تلخ تجربے کے بعد یہ سمجھنے اور ماننے پر آمادہ ہوا ہے کہ اُس کو درپیش مصائب سے نجات کیلئے تبدیلی وقت کا تقاضا بن رہی ہے۔
ناگزیر ہو گئی ہے ہمیں اس نظام کے رکھوالوں سے نجات حاصل کرنا ہے غربت اور مایوسی کی ماری ہوئی نسل ہے جو ”منظم بدمعاش گروہوں ” کے خلاف صف آرا ہو چکی ہے امیر امیر تر غریب غریب تر کی تفریق کے باعث مجتمع ہو جانے والے اثرات نے عوامی مزاحمت کی صورت اختیار کر لی فرینڈ لی لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ بادل نخواستہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ وطن عزیز مکمل بے چینی کی زد میں ہے اور مڈٹرم الیکشن کا نعقاد وقت کا تقاضا ہے اگر دوسرے نقطہ نظر سے جانچا جائے تو ریڈ زون میں ہونے والے انسانوں کے انبوہ ِعظیم نے انقلاب کی ریہر سل مکمل کر لی ہے جس نے عوام کو شعوری طور پر ایک نئی راہ دکھائی ہے کہ وہ پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ کے بغیر بھی کچھ کر سکتے ہیں کراچی ،لاہور، میانوالی کے بعد اب دیگر شہروں میں جلسوں کا تسلسل اپنے ہدف کی جانب بڑھ رہا ہے 77ء کے بعد ایک بار پھر وہ طبقہ نکل رہا ہے جو مشینوں کا لوہا پگھلانے والی بھٹیوں ،کوئلہ کانوں ،ڈیزل مٹی کے تیل اور موبل آئل کے بد بو دار ماحول میں کام کرتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا وہ ورکر جس کا خمیر بھٹو نظریات سے اُٹھا جو بھٹو کے نظریات پر کٹ مرنے کیلئے بے تاب تھا مگر اُسے پارٹی سے والہانہ وابستگی اور وفا کی سزا پنجاب کے اُن حکمرانوں نے جن کا غرور اور رعونت اپنی انتہائوں کو چھو رہا ہے ناجائز مقدمات ،سلاخوں کے پیچھے پابند سلاسل کر کے گزشتہ چھ سالوں کے دوران دی وہ ورکر جو اپنی پارٹی سے یہ اُمید اُستوار کئے ہوئے تھا کہ وہ ”دھاندلی ”کے ایشو پر لیفٹ ٹرن لے گی مگر یہ اُمید دم توڑ گئی جب وہ استحصال کار طبقہ کی پارٹی بن گئی ایک ایسی جماعت کو بچانے کیلئے وہ تمام حدیں عبور کر گئی جس کے دامن پر لیڈر شپ کے خون کے دھبے ہیں جس نے ضیا ء الحق کی سفاک اور درندہ صفت آمریت کی کوکھ سے جنم لیا ،ضیاء الحق کی باقیات،اُس کی مارشلائی ٹیم اور اُس کے دلالوں نے جس نظریاتی ورکر کی پشت پر کوڑے مروانے کا فریضہ سر انجام دیا ،جس نے بھٹو کی پھانسی کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کیں پیپلز پارٹی کے اس مایوس اور بد دل ورکر کو عمران کی شکل میں ایک اُمید کی ایسی کرن نظر آئی جو سچائی کے ساتھ اس بد دل ورکر کے حقیقی حریفوں کو للکار رہا ہے اس ورکر نے اپنے احساسات اور جذبات کا سارا وزن پاکستان تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا ہے آج بلاول زرداری انہی ورکروں سے معافی کا خواہاں ہے سانپ گزرنے کے بعد اب لکیر کو پیٹنا عبث ہے پیپلز پارٹی پنجاب کے نظریاتی ورکر کے اذہان میں یہ بات گھر کر چکی ہے کہ عمران خان ہی وطن عزیز کی جعلی نہیں حقیقی زنجیر کی قیادت کر رہا ہے۔
Parliament
غلط حکمت عملی جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو بیڑیوں کے سواروں (پیپلز پارٹی والوں )نے کی اس منافقت کے ساتھ کہ پنجاب کا ووٹ بنک بھی ہماری دسترس میں رہے اور پارلیمنٹ میں بیٹھی اشرافیہ کے مفادات پر بھی زک نہ لگے زرداری بلاول ہائوس لاہور میں جتنے ڈیرے لگائیںمگر تیر کمان سے اور بات زبان سے نکل جائے تو واپس نہیں آتے پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول ہو چکا کیونکہ ایک اکثریت نے بھانپ لیا کہ پیپلز پارٹی محض باری بچانے کیلئے فرینڈلی اپوزیشن بن کر خاموش رہی اُس وقت جب اس اکثریت سے تمام حاصلات علی الاعلان چھینی گئیں ، قومی اداروں کی نیلامی کا بازار اس ”فرینڈلی اپوزیشن ”کی سرپرستی میں سجایا گیا ،ایک ایسی اپوزیشن جو اس سرمایہ داری نظام کی عمومی شکست خوردگی کی مجسم تصویر بن گئی محنت کشوں کا استحصال ہوتا رہا ،غربت اور ذلت کی کیفیات حاوی رہیں ،سیلاب زدگان کی بحالی ،بے روزگاری اور مہنگائی ،مزدوروں اور دہقانوں کی اذیت ناک مشقت اور استحصال کے”حل ”کو جعلی اور بد عنوان نظام جمہوریت کے غلاف میں مقید کر کے رکھ دیا گیا ،جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے قانون کی حکمرانی کو شرف قبولیت بخشا گیا ،شخصی بادشاہت نے اپنے سامراجی آقائوں کے رہن سہن کی بے ہودہ نقالی سے پورے معاشرے کو بد بودار کیا الیکشن کے دنوں میں جس نے مستقبل کی بہتری کی اُمید اور خوشحالی کے وعدے کر کے عوامی اضطراب پر کاری ضرب لگائی اُسی کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹوکی سوچ اور فکر کو ایک غلط فیصلے کے ذریعے قتل کراد یا گیا یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری کے تذبذب میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے قیادت کی صفوں میں اتھل پتھل نظر آسکتی ہے افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ سیاسی غلطی کے ارتکاب کا پس منظر کیا ہے؟۔
یہ سوال بھی اک عرصہ سے بھٹو کی جماعت کا پیچھا کر رہا ہے وہ پارٹی کہاں ہے ؟آج کی قیادت سیاسی اسباق کی انقلابی تشریح کرنے سے محروم ہے جب ایک انقلابی جدوجہد کیلئے مردو زن تاریخ کے معرکے کو سر کرنے نکلے میانوالی جیسے شہر میں عوام کا اتنی بڑی تعداد میں نکلنا اس نظام کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہے جس نے منافعوں کو چند افراد تک محدود اور نقصان کو اکثریت پر لاگو کر رکھا ہے اسے اُس جبر کا اظہار کہا جاسکتا ہے جو اپنے اندر ایک اُبلتا ہوا لاوا سموئے ہوئے ہے جو ایک ناقابل برداشت دبائو کے تحت اپنی مقداری تبدیلیوں سے معیاری تبدیلیوں کی جانب گامزن ہے عوام کی سوچ اور شعور ایک مختلف مقام پر کھڑے ہیں۔