محترم عمران خاں کی احتجاجی سیاست میں آہستہ آہستہ تشدد کا عنصر شامل ہوتا جا رہا ہے اوراب وہ بھی مولانا طاہر القادری کی طرح کھلم کھلا دھمکیاں دیتے نظرآتے ہیں۔ مولانا قادری تو جو کچھ بھی کرتے ہیں افراتفری اورانار کی کے مخصوص غیر ملکی ایجنڈے کے تحت ہی کرتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن کی خوفناک الزام تراشیوں کے باوجود عمران خاں کے بارے میں تاحال لوگ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ انہیں بھی ملک میںانارکی پھیلانے کے لیے ”فارن فنڈنگ”ہوتی ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ خاں صاحب کے شدید ترین مخالفین بھی ان کی طرزِ سیاست کو محض ”احمقانہ” کہنے پر اکتفا کرتے ہیں لیکن یہ بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ اب مولانا قادری اور عمران خاں دونوں کی سیاست ایک ہی رخ اختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور دونوں ہی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ورکرز کنونشن سے عمران خاں صاحب نے جو کچھ کہا لفظی ہیرپھیر کے ساتھ وہی کچھ مولانا قادری نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا۔ عمران خاں صاحب نے فرمایا کہ اگرانہیں نظر بند کیا گیا توانکے کارکن پورا ملک بند کر دیں گے جبکہ قادری صاحب نے یہ کہا کہ اگران کے یومِ شہداء کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو 10اگست کو جاتی عمرا میں یومِ شہداء منائیں گے۔ خاں صاحب کہتے ہیں کہ مذاکرات کا باب بند ہو چکا،اب جنگ ہو گی صرف جنگ اور مقصد کے حصول تک اسلام آبادمیں بیٹھیں گے۔ قادری صاحب فرماتے ہیں کہ ایک کروڑ نمازی انقلاب کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ انہیں تویہ ”بشارت” بھی ہو گئی ہے کہ ماہِ اگست میں ہی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ادھر عمران خاں صاحب ایک لاکھ موٹر سائیکلوں کا رخ اسلام آباد کی طرف کیے بیٹھے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کے احتجاجی مارچ میں کم از کم دس لاکھ افراد ہونگے۔
Tahir ul Qadri
مولانا طاہرالقادری کہتے ہیں کہ جو پولیس والا ان کی راہ کی رکاوٹ بنے کارکن جتھے کی صورت میںاس پولیس والے کے گھر پر حملہ آور ہو جائیں جبکہ عمران خاں راہ کی رکاوٹ بننے والی پولیس کو پھانسی پر چڑھادینے کی دھمکی دے رہے ہیں مقصد دونوں کاایک،انارکی،انارکی محض انارکی۔ دونوں ہی انتہائے نرگسیت کے شکاراوراپنے آپ کوعظیم ترین رہنما تصور کرنے والے۔ اسی لیے دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کی قیادت میںاحتجاجی مارچ کے لیے تیار نہیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مولانا قادری 12اگست کوہی اسلام آباد میں جا بیٹھیں گے اور خاں صاحب 14اگست کوان کے ساتھ مل جائیں گے۔ شیخ رشیداور چودھری برادران کی سیاست تویہی تھی لیکن مولانا قادری نے عین موقعے پراپنی راہیں جدا کر لیںاورانقلاب مارچ کی بجائے 10 اگست کو لاہور میں یومِ شہداء منانے کا اعلان کر دیا۔
مولانا طاہرالقادری توپارلیمانی سیاست پریقین رکھتے ہیںنہ ان کا پارلیمنٹ میں کوئی حصہ ہے لیکن خاںصاحب اسی پارلیمنٹ کی پیداوارہوتے ہوئے بھی مولانا طاہرالقادری کی راہ پر چل نکلے ہیںجس کی بنا پر وہ سیاسی تنہائی کا شکارہو گئے اوراب کوئی بھی سیاسی جماعت اُن کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت میں شریک تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی اورعوامی جمہوری اتحادنے اِس لانگ مارچ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کسی صورت ڈی ریل نہیں ہونی چاہیے۔ امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق نے خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز کو سختی سے ردکرتے ہوئے کہاکہ خیبر پختونخوا کے عوام نے صوبائی اسمبلی کوتوڑنے کی تجویزکوپسندنہیںکیاالبتہ تحریکِ انصاف اگرصوبائی اسمبلی چھوڑنا چاہتی ہے تویہ اُس کا حق ہے۔ایم کیوایم نے بھی اِس لانگ مارچ سے لاتعلقی کا اظہارکیا ہے اورپیپلزپارٹی کے سیدخورشیدشاہ توروزِاول سے ہی اِس کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں۔وہ تویہ بھی کہتے ہیںکہ وہ نہیںجانتے کہ عمران خاںکا ایجنڈا کیا ہے۔
Nawaz Sharif
ایجنڈا تو خیر کچھ کچھ واضح ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب تو صاف نظرآنے لگا ہے کہ خاںصاحب کا ایک ہی مطمعٔ نظریعنی وزارتِ عظمیٰ کا حصول ،اِس سے کم پروہ کسی صورت راضی نہیںلیکن یہ منزل توابھی دوربہت دورنظرآتی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کوہٹانے کی صرف تین ہی راہیںہیں۔پہلی یہ کہ میاں نوازشریف صاحب رضاکارانہ طورپرحکومت تحریکِ انصاف کے سپردکردیں،دوسری یہ کہ تحریکِ عدم اعتمادکے ذریعے وزیرِ اعظم کوفارغ کردیا جائے اورتیسری مارشل لائ۔وزیرِ اعظم صاحب بھلارضاکارانہ طورپرحکومت کیوںچھوڑنے لگے؟۔البتہ تحریکِ عدم اعتمادلانا تحریکِ انصاف کا جمہوری حق ہے لیکن یہاں مسٔلہ یہ آن پڑا کہ خاںصاحب کی”پٹاری”میںصرف 35ووٹ جبکہ دوسری طرف نوازلیگ کے پاس307۔تحریکِ عدم اعتمادکی کامیابی کے لیے دوتہائی اکثریت یعنی 227ووٹ درکارہیںجبکہ خاںصاحب کے پاس مطلوبہ تعدادکا دسواںحصہ بھی نہیں۔
اِس لیے یہاںبھی کامیابی ممکن نہیںہے۔تیسری راہ مارشل لاء کی ہے لیکن موجودہ حالات میںفوج کسی بھی صورت میںمارشل لا ء کی متحمل نہیںہوسکتی لیکن اگرایک لمحے کے لیے یہ تصورکربھی لیاجائے کہ خاںصاحب کے لانگ مارچ کی وجہ سے مارشل لاء بھی لگ سکتا ہے تواِس صورت میںبھی خاںصاحب کے ہاتھ تو کچھ نہیںآئے گاالبتہ اُن کی سیاسی موت ضرورہوجائے گی۔ذراماضی میںجھانک کردیکھئے ،بھٹودورمیںپی این اے کی تحریک عروج پرتھی اوراصغرخاںمقبول ترین لیڈر۔نتیجہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کی صورت میںنکلااوراصغرخاںسیاسی شطرنج کی بساط سے ہمیشہ کے لیے غائب ہوگئے اورضیاء الحق مرحوم کے کندھے سے کندھا ملا کرکھڑی ہونے والی جماعتِ اسلامی کو اسی مارشل لاء نے تیس سال پیچھے دھکیل دیا اوراُسے اپنا سیاسی سفرنئے سرے سے شروع کرنا پڑا۔
اب اگرخاں صاحب کی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء آتا ہے توقوم انہیں ہی موردِالزام ٹھہرائے گی جواُن کی سیاسی موت کے مترادف ہوگا۔اگرلانگ مارچ کی صورت میںجمہوریت مضبوط اورخاںصاحب کی منزل قریب ہوتی نظرآتی توہم بھی یہی کہتے کہ یہ خاںصاحب کا جمہوری حق ہے لیکن ایساہونا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔اگرخاںصاحب کودھاندلی کی شکایت تھی تواُنہیںچاہیے تھا کہ وہ اپنے اراکینِ اسمبلی کوحلف اُٹھانے سے منع کرتے ہوئے سڑکوںپرنکل آتے تاکہ قوم اُنکی باتوںپردھیان بھی دیتی لیکن خاںصاحب نے انتخابی نتائج کوتسلیم بھی کیااورخیبرپختونخوا حکومت کے مزے بھی لوٹے۔اب سوا سال بعداچانک اُنہوںنے وسط مدتی انتخاب کا مطالبہ کردیا اوروہ اپنے اراکین سے اسمبلی کی رکنیت سے استعفے کا تقاضہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیںجس کی بنا پراُن کی اپنی جماعت میںہلچل مچی ہوئی ہے۔عمومی خیال یہی ہے کہ اراکینِ اسمبلی کی غالب اکثریت مستعفی ہونے سے انکارکردے گی۔اب صرف ایک ہی راہ باقی بچتی ہے کہ خاںصاحب اپنے ساتھیوںکے ساتھ پارلیمنٹ،ایوانِ صدراوروزیرِاعظم ہاؤس پریلغارکرکے زبردستی حکومت چھین لیں۔سوال مگریہ ہے کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟۔