اس عید قربان پر اگر کسی کے ارمانوں کا خون ہوا ہے تو وہ مڈل کلاس طبقے کا ہوا ہے جو عید کے تیسرے دن بھی گوشت کھانے سے محروم رہے کرونا وائرس اور پھر لاک ڈاؤن سے اس طبقے کا سفید پوشی والی بھرم بھی دم توڑ گیا ایک مہنگائی اور اوپر سے بے روزگاری نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور پھر بہت سے مڈل کلاسیے غربا کی لسٹ میں شامل ہوگئے ویسے تو ہمارے ملک میں بہت سے طبقات ہیں جو اپنے اپنے رنگ میں زندگی گذار رہے ہیں ان میں کچھ افراد خوشحال ہیں کچھ شرمسار رہتے ہیں گھر والوں سے،رشتہ داروں سے اور دوستوں سے کیونکہ وہ مشکل حالات کی وجہ سے کسی کی بھی خدمت نہیں کرسکتے بلکہ اندر ہی اندر ہر فرد سے کوئی نہ کوئی امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جو پوری ہونے کا نام نہیں لیتیاور یہ لوگ اپنی عزت بچاتے بچاتے خود ڈوب جاتے ہیں اس وقت ملک میں دو قسم کے لوگ بڑے اطمینان سے ہیں ایک غریب اوردوسرا امیر…… یہ جو درمیان والے ”مڈل کلاسیئے“ ہیں، صحیح بیڑا ان کا غرق ہوتاہے یہ رکھ رکھاؤ سے لگ بھگ امیر لگتے ہیں لیکن حالت یہ ہوتی ہے کہ گھر میں آئے روز اس وجہ سے لڑائیاں ہوتی ہے کہ گھی اتنی جلدی کیسے ختم ہوگیاہمارے ہاں قابل رحم اور قابل نفرت بھی دو ہی طبقات ہیں پاکستان کا بجٹ بھی انہی دو طبقات کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے گورنمنٹ بھی انہی دو طبقات پر نظر رکھتی ہے۔
ہم سے سے اکثر اپنے آپ کو مڈل کلاس کہتے ہیں اور اصل میں یہ لوگ ہوتے کون ہیں؟ان کے پاس بظاہر امیروں والی ہر چیز ہوتی ہے لیکن سیکنڈ ہینڈ نسبتاً بہتر گھر ہوتا ہے لیکن کرائے کا۔گاڑی ہوتی ہے لیکن بیس سال پرانی گھر میں اے سی ہوتا ہے لیکن عموماً چلتا ائیر کولریا پنکھا ہی ہے کپڑے صاف ہوتے ہیں لیکن چلتے کئی کئی سال ہیں۔ گھر میں یو پی ایس ہوتا ہے لیکن اس کی بیٹری عموماً آدھا گھنٹہ ہی نکالتی ہے۔ان کے پاس اچھا موبائل بھی ہوتا ہے لیکن استعمال شدہ۔ گھر میں ہر ہفتے پتلے شوربے والی مُرغی بنتی ہے یہ اپنے بچوں کو پارک میں سیرو تفریح کے لیے لے کر جائے تو عموماً گھر سے اچھی طرح کھانا کھا کر نکلتا ہیں۔ان کے پاس اے ٹی ایم کارڈ تو ہوتا ہے لیکن کبھی پانچ سو ہزار سے زیادہ نکلوانے کی ضرورت پڑتی ہے نہ ہمت ہوتی ہے۔
یہ دن رات کوئی ایسا بزنس کرنے کے ہوائی منصوبے بناتا ہے جس میں کوئی خرچہ نہ کرنا پڑے۔ ان کی گاڑی صرف سردیوں میں بڑے کمال کی کولنگ کرتی ہے یہ جب بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کر کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ جاتے ہیں چھ افراد کی ساری فیملی کے لیے تین کھانوں کا آرڈر دیا جاتا ہے رشتے دار اسے امیر سمجھ اکثر اس سے ادھار مانگنے آجاتے ہیں یا کم از کم تحائف کی توقع ضرور رکھتے ہیں اوریہ اپنی اوقات سے صرف 20فیصد اونچی زندگی گذارنے کی کوشش میں پستا رہتا ہے۔ اصل میں یہ غریبوں سے بھی بدتر زندگی گذار رہا ہوتا ہے۔ اس کی ساری زندگی کمیٹیاں ڈالنے اور بھگتانے میں گذر جاتی ہے۔پاکستان میں امیروں اور غریبوں سے کہیں زیادہ تعداد مڈل کلاسیوں کی ہے لیکن یہ کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں ہر وہ بندہ مزے میں ہے جس کے پاس بہت سارا پیسہ ہے یا بالکل نہیں ہے۔جس کے پاس پیسہ ہے وہ اے سی میں سوجاتاہے۔جس کے پاس نہیں وہ کسی فٹ پاتھ پر نیند پوری کر لیتا ہے۔
پیسے والا کسی سے کچھ نہیں مانگتا اور غریب ہر کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔رگڑا اُس کو لگتا ہے جس کے پاس پیسہ تو ہے لیکن صرف گذارے لائق۔غریبوں کی اکثریت کو یہ مڈل کلاسیے ہی پال رہے ہیں۔کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ سب سے زیادہ خوف خدا بھی اِس مڈل کلاس میں ہی پایا جاتاہے۔ یہی کلاس سب سے زیادہ خیرات کرتی ہے۔ بعض اوقات تو ان کی اپنی زندگی غریب سے بھی بدتر گذر رہی ہوتی ہے لیکن انا کے مارے یہ بیچارے کسی کو بتاتے نہیں۔آپ نے کبھی لوئر ایلیٹ کلاس یا اپر ایلیٹ کلاس کی ٹرم نہیں سنی ہو گی۔لوئر غریب یا اپر غریب بھی نہیں ہوتا صرف لوئر مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔لوئر اور اپر میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا لوئر والے کے پاس موٹر سائیکل ہوتی ہے اور اپر والے کے پاس پرانے ماڈل کی کار۔نیندیں دونوں کی ہی اڑی رہتی ہیں۔عیدالاضحی پر قربانی کی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود کسی اونٹ یا گائے میں حصہ ڈال لیتے ہیں جو اس عید پر بہت کم دیکھنے میں آیا۔ان کی ساری زندگی گھر کی فالتو لائٹس آف کرنے اور بل کم کرنے کے منصوبے بناتے گذر جاتی ہے۔یہ موبائل میں سو روپے والا کارڈ بھی پوری احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور گھر والوں کو آگاہ کیا ہوتا ہے کہ ایک مسڈ کال دوں تو اس کا مطلب ہے میں آرہا ہوں۔ دو مسڈ کال دوں تو مطلب ہے میں ذرا لیٹ ہوں۔
یہ ایک دن کے استری کیے ہوئے کپڑے دو دن چلاتے ہیں۔یہ ہر دو گھنٹے بعد شک دور کرنے کے لیے بجلی کے میٹر کی ریڈنگ چیک کرتے رہتے ہیں۔یہ کبھی بھی اس قابل نہیں ہو پاتے کہ ایک ہی مہینے میں بجلی، گیس اور پانی کے سارے بل اکٹھے ادا کرسکیں لہذا بجلی کا بل ادا کر دیں تو گیس کا بل اگلے مہینے پر ڈال دیتے ہیں۔ان کی اکثریت چونکہ پڑھی لکھی بھی ہوتی ہے لہذا کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ان کے پاس بیٹیوں کی شادی کرنے کے پیسے نہیں ہوتے،اولاد کے لیے اچھی نوکری کی سفارش نہیں ہوتی اس کے باوجود یہ کسی کو دکھ میں دیکھتے ہیں تو خود بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ان کے گھر کام کرنے والی غریب ماسی چونکہ دیگر مختلف گھروں میں بھی کام کرتی ہے اس لیے رمضان میں ہر گھر سے راشن کے نام پر لگ بھگ پچاس کلو آٹے سمیت چار پانچ ماہ کا راشن اکٹھا کرنے میں کامیاب رہتی ہے لیکن ” مڈل کلاسئے” پریشان رہتے ہیں کہ اپنے گھر کے لیے جو پندرہ دن کا راشن لائے تھے، وہ ختم ہونے کے قریب ہے اور تنخواہ ملنے میں ابھی کافی دن باقی ہیں۔ زکوٰۃ غریبوں کو جاتی ہے۔ خیرات کے پیسے بھی کوئی غریب ہی لیتا ہے۔
فطرانہ بھی غریب کا نصیب بنتا ہے۔لیکن غریب یہ سب لے کر بھی کوئی کام کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا کیونکہ اس نے طے کر لیا ہے کہ چونکہ وہ غریب ہے لہذا اس پر کسی قسم کی کوئی محنت فرض نہیں اور باقی سب کو چاہیے کہ وہ اسے مل جل کر پا لیں۔بھکاری وہ واحد طبقہ ہے جو کبھی کسی کو بھیک نہیں دیتا۔آپ کسی بھکاری کو ذرا کسی کام پر لگانے کی آفر کریں، آگے سے جو سننے کو ملے گا وہ آپ بہتر جانتے ہیں۔ لیکن مڈل کلاسیا کیا کرے؟یہ نہ زکوٰۃ مانگتا ہے،نہ فطرانہ،نہ خیرات یہ صرف کڑھتا ہے، سسکتا ہے اور مرتا ہے اور اس عید قربان پر اسی مڈل کلاسیے کو اپنے بچوں کی معصوم خواہشوں اور گھروں کی ضرورتوں پر قربان ہوتے ہوئے میں نے بھی دیکھا ہے اور مجھے لگا کہ اس بار جانوروں کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس افراد نے اپنے جذبات اور اپنے آپ کی کی بھی قربانی دی ہے۔