مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں کون ثالثی کر سکتا ہے؟

Gaza War

Gaza War

فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ایک مرتبہ پھر خونریز لڑائی جاری ہے اور جنگ بندی کا کوئی فوری امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔ بین الاقوامی رہنما فوری جنگ بندی کی اپیلیں کر رہے ہیں لیکن ثالث کا کردار کون ادا کر سکتا ہے؟

اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین خونریز لڑائی دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیو گوٹیرش نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ لیکن کسی بھی طرح کی فوری جنگ بندی عارضی ثابت ہو گی کیوں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے وسیع تر امن مذاکرات کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کونسا عالمی ادارہ یا پھر حکومت اس مسئلے کے حل میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے؟

اقوام متحدہ کے سربراہ کے مطابق وہ اور ان کا ادارہ فوری جنگ بندی کے لیے فریقین کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں اور انہوں نے حکومت اسرائیل اور حماس تنظیم سے ”ثالثی کی کوششوں کو تیز اور کامیاب بنانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘ لیکن اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل میں امریکی رکاوٹوں کی وجہ سے اسرائیل فلسطین تنازعے کے سفارتی حل میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اتوار کے روز ہونے والے اجلاس میں سلامتی کونسل نے تشدد کی تو مذمت کی لیکن کوئی بھی عوامی پریس ریلیز جاری نہ ہو سکی۔ اس وقت سلامتی کونسل کی سربراہی چین کے ہاتھ میں ہے، جس نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا کسی بھی قرار داد میں بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے فی الحال اس حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ امریکا ماضی میں تقریبا ہر اس قرارداد کو ویٹو کرتا آیا ہے، جو اسرائیل کے خلاف تھی۔

اسرائیل اور امریکا مشرق وسطیٰ میں قریبی اتحادی ہیں جبکہ اسرائیل کے فوجی سازو سامان میں امریکا کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین کوئی تنازعہ پیدا ہوا ہے، امریکا اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب رہا ہے۔

اسرائیل اور امریکا کے مابین دوستانہ تعلقات کا عروج سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دیکھنے میں آیا، جب تمام دنیا کے بڑے ممالک کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا، جسے اسرائیل میں بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا، جو بری طرح ناکام ہوا۔ یہ منصوبہ زیادہ تر اسرائیل کے فائدے میں تھا اور اس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کا لازمی حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔

حالیہ تنازعے میں بائیڈن انتظامیہ فی الحال ‘خاموش تماشائی‘ کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اوباما یا پھر ٹرمپ انتظامیہ کے برعکس لگتا یوں ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے یہ مسئلہ سرفہرست یا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ امریکا کا اس وقت اسرائیل میں کوئی سفیر ہی موجود نہیں ہے۔

امریکن یونیورسٹی میں شعبہ اسرائیلی اسٹیڈیز سے وابستہ ڈین اربیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”امریکا اب اس صورتحال میں پھنس گیا ہے، ورنہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس (اسرائیل فلسطین) سے نمٹنے کا منصوبہ نہیں رکھتے تھے۔‘‘ اربیل کا بائیڈن انتظامیہ سے متعلق مزید کہنا تھا، ”وہ اس مرتبہ تنازعے کے حل کی بجائے تنازعے کو سنبھالنے پر دھیان دینا چاہتے ہیں، فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا چاہتے ہیں اور بات چیت کے دروازے کھولنا چاہتے ہیں۔‘‘

پیر کے روز بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے کہا کہ وہ جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں لیکن انہوں نے اسرائیل کی بمباری مہم کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرنے سے گریز کیا۔ دریں اثناء امریکی محکمہ خارجہ کے خصوصی مندوب برائے اسرائیل فلسطین ہادی عمرو نے اسرائیلی اور فلسطینی وفود سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کے باس اور امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے پیر کے روز کہا تھا کہ اگر اسرائیل اور حماس اپنی کارروائیاں بند کرنے میں سنجیدہ ہیں تو امریکا مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

عرب لیگ نے امریکا سے مشرق وسطیٰ امن عمل میں مزید موثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کسی نئے امن منصوبے کے ساتھ کب تک سامنے آتی ہے۔ لیکن ایک ہفتہ پہلے تک یہ تنازعہ بائیڈن انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر گریس ورمینبول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” فارن پالیسی کے لحاظ سے بائیڈن انتظامیہ کی توجہ ایران اور افغانستان پر مرکوز ہے۔ انہوں نے اسرائیلی اور فلسطینی دلدل میں براہ راست ملوث نہ ہونے کا انتخاب کیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”تاہم تازہ بڑھتی ہوئی کشیدگی بائیڈن اور ان کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کو اپنی بین الاقوامی ترجیحات پر فوری غور کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔‘‘

یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اور اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بوریل نے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ آج منگل کو اس حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس کر رہے ہیں۔

بوریل کا کہنا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ، امریکا، یورپی یونین اور روس کے ساتھ رابطوں میں ہیں تاکہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ مشرق وسطیٰ امن عمل میں یورپی یونین کا کبھی بھی قائدانہ کردار نہیں رہا بلکہ یورپی یونین نے ہمیشہ انسانی امداد کی فراہمی پر توجہ مرکوز کیے رکھی ہے۔ یورپی یونین فلسطینی اتھارٹی کو امداد فراہم کرنے والی سب سے بڑی ڈونر ہے۔ اس کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں سن دو ہزار کے بعد سے 700 ملین یورو کی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔

جرمنی کی خارجہ پالیسی کی کمیٹی کے چئیرمین نوربرٹ روئٹگن کا جمعے کے روز کہنا تھا کہ اس تنازعے کے حل میں ”امریکا فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکا نے فوری طور پر اس معاملے پر محکمہ خارجہ کے نمائندے کو روانہ کیا۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کا اس تنازعے کے حل میں عملی طور پر کوئی کردار نہیں ہے اور وہ بنیادی طور پر انسانی امداد فراہم کرنے کے ذریعے ہی حصہ ڈال سکتی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ مغربی سرحد رکھنے والے مصر کی خفیہ ایجنسیوں کے حماس کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔ ویک اینڈ پر دو گھنٹے کی فائر بندی کے لیے ہونے والی ثالثی کی کوششوں میں مصر نے اقوام متحدہ اور قطر کے ساتھ مل کر کلیدی کردار ادا کیا۔ اس مختصر فائربندی کا مقصد غزہ کے واحد بجلی گھر کے لیے فیول فراہم کرنا تھا۔ لیکن یہ کوشش ناکام ہو گئی کیوں کہ اسی دوران اسرائیل نے حماس کے چیف یحییٰ السنوار کے گھر کو نشانہ بنایا۔

جمعرات کو تل ابیب جانے سے پہلے مصری وفد نے بدھ کو غزہ میں اسلامی فلسطینی گروپوں سے ملاقات کی۔ مصری حکومت کے مطابق اسرائیلی رہنما ابھی تک فائربندی معاہدے سے انکار کر رہے ہیں۔ اتوار کے روز نیتن یاہو نے بھی اس کی تصدیق کی کہ وہ فوری جنگ بندی کی تلاش میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ” ہم حماس کی دہشت گردانہ صلاحیتوں کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ نتین یاہو نے امریکی سی بی ایس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا، ”اس میں کچھ وقت لگے گا۔ مجھے امید ہے کہ زیادہ وقت نہیں لگے گا لیکن یہ فوری نہیں ہے۔‘‘