ایران (اصل میڈیا ڈیسک) شامی خانہ جنگی، یمن کی جنگ اور آبنائے ہرمز: مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدلتا جا رہا ہے۔ ایران نے ان تبدیلیوں کو بڑی دانش مندی سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے اور تہران خطے میں قائدانہ کردار کے حامل نئی طاقت بن سکتا ہے۔
امریکا عسکری حوالے سے شمالی شام سے نکل چکا ہے لیکن سفارتی میدان وہ اب بھی موجود ہے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ بات چیت کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا کہ ترکی شمالی شام میں اپنی فوجی کارروائیوں میں پانچ روزہ فائر بندی پر تیار ہے۔
شامی کردوں کے مطابق یہ فائر بندی اگرچہ عملاﹰ وہ نہیں ہو گی، جس کی کہ انقرہ میں ترک کابینہ نے حمایت کی ہے تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ ترک صدر ایردوآن کا یہ اعلان صرف امریکا کی کافی بھرپور سفارتی کوششوں کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔
جو بات واضح نہیں، وہ یہ ہے کہ آیا اس فائر بندی اعلان کا واقعی احترام بھی کیا جائے گا؟ غیر واضح تو یہ بات بھی ہے کہ آیا وائٹ ہاؤس کی سوچ یہ ہے کہ نائب صدر مائیک پینس کا دورہ ترکی اس خطے میں امریکا کی سیاسی اور سفارتی کوششوں کا ایک نیا مرحلہ تھا یا شاید وہ آخری کوشش جس کا مقصد یہ تھا کہ شمالی شام سے امریکی فوجی انخلاء کم از کم بہت جلدی میں کیا جانے والا کوئی اسٹریٹیجک فیصلہ ثابت نہ ہو۔
لیکن یہ بات بہرحال یقینی ہے کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی کوششیں واضح طور پر اور اس طرح کم کر دی ہیں کہ ان کے بعد شروع ہونے والے ضمنی اثرات کا سلسلہ بھی اب کافی طویل ہو چکا ہے۔ ان ضمنی اثرات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب خطے میں نئے اتحاد اور طاقت کے نئے مرکز قائم ہونے لگے ہیں۔ بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ خطے کی کوئی بھی دوسری ریاست اس امر کی ایران سے زیادہ قائل نظر نہیں آتی کہ وہ ان بدلتے ہوئے حالات کو اپنے حق میں استعال کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔
چودہ ستمبر کو سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ کیے جانے والے حملوں کی ذمے داری اگرچہ یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے قبول کر لی تھی تاہم سعودی عرب اور امریکا نے الزام ایران پر ہی لگایا تھا، جس کی تہران کی طرف سے بھرپور تردید بھی کر دی گئی تھی۔
اس تردید کے باوجود اس سلسلے ایران کے ناقدین کا تہران پر شک و شبہ مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوا تھا۔
اس پس منظر میں ایک بات بالکل واضح ہے، اسرائیلی اخبار ‘ہاریٹس‘ کے مطابق ایران نے اگر ان حملوں کا سچ مچ حکم دیا تھا، تو اس نے ایسا واقعی بہت زیادہ خود اعتمادی کے احساس کے ساتھ ہی کیا ہو گا۔
‘ہاریٹس‘ لکھتا ہے، ”ایران نے سعودی عرب پر یہ حملے اس لیے نہیں کروائے ہوں گے کہ یہ تہران کی طرف سے اس کی کوئی نئی سیاسی پالیسی ہے یا اسے کوئی نیا ہتھیار مل گیا ہے، بلکہ محض اس وجہ سے کہ تہران کو علم تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے ایک قریبی اتحادی ملک کے طور پر سعودی عرب کے بہت قریب نہیں کھڑے ہوئے ہوں گے۔‘‘
سعودی امریکی عسکری اتحاد میں مضبوطی کے بجائے نرمی کے آثار تو کافی عرصے سے نظر آنا شروع ہو چکے تھے۔ امریکا کی طرف سے خلیج کے علاقے میں بھیجے جانے والے بحری بیڑے کی طرف سے بہت پرسکون رویہ ظاہر کیا جائے گا، یہ بات تہران کے لیے تقریباﹰ واضح ہی تھی۔