مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوج اور میزائلوں میں کمی کا فیصلہ

Missiles

Missiles

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی فوج کے ہیڈکوارٹر نے مشرقِ وسطیٰ میں تعینات ملکی فوج میں کمی کرنے کی تصدیق کی ہے۔ فوجیوں کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ فضائی دفاعی فورسز اور وہاں نصب پیٹریاٹ میزائلوں میں کمی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں امریکی فوجی دستے کم کرنے سے متعلق ایک رپورٹ معتبر جریدے وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے مندرجات کی اب امریکی محکمہ دفاع کے صدر دفتر پینٹاگون نے باضابطہ تصدیق کر دی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں امریکی فوج میں کمی، ایئر ڈیفنس یونٹس اور وہاں نصب کئی میزائل بیٹریاں ہٹانے کے بارے میں ایک بیان پینٹاگون نے جمعہ اٹھارہ جون کو جاری کیا۔

پینٹاگون کے مطابق خطے میں امریکی فوجی دستوں میں کمی کے ساتھ ساتھ ایئر ڈیفنس یونٹس بھی ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ آٹھ پیٹریاٹ میزائل بیٹریاں بھی ہٹا لی جائیں گی۔ ہر میزائل بیٹری سے منسلک سینکڑوں فوجی اور سویلین عملہ بھی منتقل کر دیے جائیں گے۔

پینٹاگون کی ترجمان کمانڈر جیسیکا مکنلٹی نے واضح کیا کہ ہٹائے جانے والے فوجی یونٹوں کو دوسرے ممالک میں تعینات کیا جائے گا۔ انہوں نے اس فوجی تعیناتی کے لیے نئے ممالک کے نام بتانے سے گریز کیا۔

امریکی فوجی ہیڈکوارٹر کی ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کٹوتی کا فیصلہ خطے میں اتحادی ممالک کے ساتھ رابطہ کاری سے کیا گیا۔ مکنلٹی نے یہ بھی کہا کہ خطے کی سکیورٹی صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کا طاقتور تشخص بھی بحال رکھا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق خطے کی سلامتی سے متعلق امریکی ذمے داریاں پوری کی جائیں گی۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ بظاہر ایران کے ساتھ پیدا شدہ تناؤ اور کشیدگی کم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ایران کے ساتھ امریکی کشیدگی سن 2019 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد ہی خطے میں امریکی فوجی موجودگی کو بڑھایا گیا تھا۔ پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹریوں کی تنصیب عراق، کویت، اردن اور سعودی عرب میں کی گئی تھی۔ ان کے علاوہ انتہائی جدید دفاعی میزائل نظام تھاڈ (THAAD) بھی سعودی عرب منتقل کر دیا گیا تھا۔

امریکی فوج افغانستان سے اپنی دستے نکالنے کے بعد بھی عالمی سطح پر اپنے عسکری معاملات اور دلچسپیوں کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ واشنگٹن کو ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں چین کی طرف سے عسکری اور معاشی مسابقت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب ایران اس وقت بھی مشرق وسطیٰ میں خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

امریکا اب بھی عراق میں جہادی تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف بغداد حکومت کے فوجی اقدامات کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ پینٹاگون کی ترجمان کے مطابق اس وقت بھی ہزاروں امریکی فوجی مشرق وسطیٰ میں موجود ہیں، جو وہاں امریکی عسکری تشخص کے علمبردار ہیں۔