اقبال شاعرِ فردا، کے عنوان سے مصنف۔ شاریح غلام صابر از کوپن ہیگن شاعرِ مشرق کی چند نظموں کی تشریح کرتے ہیں، اِس کتاب کا تعارف ڈاکٹر وحید عشرت نے انتہائی خوبصورت لفظوں سے مزین کیا، میرے ہاتھ میں کتاب کا چوتھا ایڈیشن ہے جو ٢٠١٠ میں شائع ہوأ، نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کی تشریح کرتے ہوؤے صفحہ ،٤٤ پر رقطراز ہیں۔
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم ِ شش جہات اِس لئے ہو نہ روشن اِس خدا اندیش کی تاریک رات
یعنی اگر مسلمانوں کی تاریک راتوں میں روشنی کی کوئی کرن آگئی تو یہ لوگ اقوام عالم کو اپنے فکر و عمل سے بیدار کر دیں گے …(۔مگر فکر توپہلے ہی یہ کہہ کر کہ آزادیء افکار ہے ابلیس کی ایجاد، فکرپر پابندی لگا دی کہ یہ فکر ابلیس کی ایجاد ہے ….. ) لہذا اِس قوم کے لئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اِس کے افراد اِس قسم کی بحثوں میں الجھیں رہیں” ۔جیسا کہ آج بھی ….! یہاں ایک اہم واقع ہوتا ہے کہ ابلیس اپنی شوریٰ میں مشیروں سے ہمکلام ہے اور اُس کا ٹارگٹ مسلم امّہ ہے سارا زور اِسی ایک بات پر ہے کہ اُمّت کو الجھائے رکھو ..؛ وہ کہتا ہے ؛’….. ؛ تم اِسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے ؛ تا بساطِ زندگی میں اِس کے سب مہرے ہوں مات ..! اور پھر اچانک ابلیس نے بات کا رخ بدلتے ہوئے ابنِ مریم کو زیر بحث لے آتا ہے،ایسا کیوں؟ یہ قابل فکر ہے ،؟اورمجھے نہیں علم کہ کبھی کسی شاریح نے ذیل کے اِن اشعار کی تشریح کی ہو۔
ابن ِ مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے ؛ ہیں صفاتِ ذات حق، حق سے جد ا یا عین ذات؟ آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے یا مجدّد جس میں ہوں فرزند مریم کی صفات؟ ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
اِس وقت حکیم الا مت علامہ اقبال کا ہاتھ قوم کی نبض پر ہے اور وہ ایک ایک کر کے ہمارے امراض گنوا رہے ہیں جن کی وجہ سے ابلیسی نظام اِس دنیا میں اب تک کامیاب رہا ہے اور آئندہ بھی اگر قوم شیاطین کو کچھ امید نظر آتی ہے تو اِن ہی ابلیسی نظریات کے زریعہ ممکن ہے جن کی وجہ سے امت ِ مسلمہ فرقوں میںبٹ چکی ہے اِس لئے وہ (شیطان)اپنی تقریر کے دوران مشیروںسے سوالیہ انداز میں کہتا ہے۔
غلام صابر صاحب نے مندرجہ بالا اشعار کی تشریح نہیں کی ،شائد اِس کی تشریح مشکل تھی یقیناً مشکل ہے بلکہ آج بھی …مشکل تو نہیں مگر تشریح کرنا مشکل ہے وہ تشریح کرنا نہیں چاہتے تھے اِس لئے اوپر ہی سے گزر گئے ….مجھ جیسے شخص کے لئے تو اور مشکل تا ہم… .. ،پہلا مصرع، ا بن مریم مر گیا یا زندئہ ِ جاوید ہے ،اُس وقت دو فریق تھے اور ،آج بھی بلکہ ہمیشہ تک رہیں گے ایک کا ایمان ہے کہ ابن ِ مریم زندہ ہے مگر دوسر افریق یہ ماننے کے لئے تیار نہیں اُن کا ماننا ہے کہ ابن مریم ِ مر گیا ..اب سوال پیدہ ہوتا ہے کہ ایک فریق کا قرآن کی واضح تعلیم کے خلاف اِس بات پر اسرار ہے کہ ابن مریم مر گیا کیوں…؟ کہ یہ اگلا مصرع ہی اُسے انکار کرنے پر مجبور کرتا ہے ..’ ہیں صفاتِ ذات حق، حق سے جُدا یا عین ِ ذات ؟اب یہ دوسرا مصرع جس نے اُسے الجھا دیا۔
اِس بات نے اُسے اُس مقام تک پہنچا دیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہی چنانچہ اُس کے لئے واحد راستہ انکا ر اور یہ دعویٰ کہ میں ہی مسیح ِ موعود ہوں..ایسا دعویٰ کیوں کیا جو کسی کے لئے بھی قابلِ قبول نہیں تھا؟ انسان کے اِس چھوٹے سے دماغ میں وہ کچھ آ جائے جِسے وہ قبول نہ کر پائے یا ضرورت سے بہت زیادہ علم حاصل کر لے تو پھر یا تو وہ شخص پاگل ہو جائے گا یا پھر بھٹک جائے گا یہی کچھ اُس شخص کے ساتھ ہوأ ،….. بعض اوقات سچائی بھی برداشت سے باہر ہوتی ہے جو قبول نہیں کی جاتی ، ١٩ ویں صدی کا بہت بڑا عالم کہہ سکتے ہیں ،مگر ِ افسوس بڑی بری طرح ابلیس سے مات کھا کر دین اور دنیا سے ہی گیا …نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے گئے دونوجہان نظر سے گزر…. سوال یہ نہیں کہ ابنِ مریم مر گیا یا زندہ ہے ؛ اہم سوال تو یہ ہے کہ یہاں جو صفاتِ بیان کی گئی ہیں۔ ہیںصفاتِ ذات حق ..کیا ہے،اور ‘حق سے جدانہیں،، پھر ‘یا عین ذات؟.. گو میری فکر شاعر مشرق کی فکر تک پہنچنے سے قاصر ہے جس طرح غلام صابر صاحب بھی کچھ کہنے سے معذور دکھائی دیتے ہیں، تاہم جو کچھ اُنہوں نے فرمایا اُس پرفکر وتلاش انسانی جبلت ہے۔
Allah
یہ ضروری نہیں کہ ہرقاری کے زہن میں وہ کچھ سما جائے جو علامہ فرما رہے ہیں کہ اُنہیں توریت و انجیل پر بھی عبور حاصل تھا، اگر پورا مصرع ملا کر غور کیا جائے تو ابنِ مریم میں وہ تمام صفات ذاتِ حق تھیں، اور حق سے جُدا بھی نہیں کہ یہی ،عین ذات ؟ ….سورة آلعمران کی آیت مبارکہ نمبر ٤٥ ،ترجمہ…جس وقت کہا فرشتوں نے اے مریم تحقیق اللہ تعالےٰ بشارت دیتا ہے تجھ کو ایک کلمہ کی طرف سے اپنی نام اُس کا( یہی مقام ِ غور وفکر ہے کس کا نام….. )مسیح عیسیٰ بیٹا مریم کا … یوحنا کی انجیل باب ؛١ آیت ١، ابتدا میں کلام تھا کلام خدا کے ساتھ وہی کلام مجسم ہوأ اور ہمارے دمیان رہا …. آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے: یا مجدّد جس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات ؟ علامہ اقبال اُس مسیحِ ناصری کی آمد سے متعلق فرما رہے ہیں جس کی آمد ثانی کی اقوام عالم منتظر ہیں۔
اگر اِس پر آشوب نفسا نفسی کے دور میں مسیح ِ ناصری نہیں تو مجد د ہی کی ضرورت ہے جس میں فرزندِ مریم کی صفات ہوں، اب اُس شخص نے جس نے خود کو مسیح موعو د قرار دیا اُس کے لئے اسی فکر کی روشنی میں خود کو ١٣ ویں صدی ہجری کا مجدّد قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں تھا اور اُس نے قرآن سے بھی گنجائش نکال لی اور خود کو مسیح موعو د کے ساتھ مجدّد صدی بھی قرار دے لیا ، اور اس طرح ٢٠،ویں صدی عیسوی میں ایک اور بدعت نے جنم لیا اور عین ممکن ہے آئندہ بھی کوئی اس رعائت سے مسیح موعود کا دعویدار ہواور یہی ابلیس کا کارنامہ ہے کہ اُس نے ہر عہد میں بلکہ جب آدم کو خلق کیا گیا اُسے گرانے کے .اپنے منصوبے پر تب ہی سے کام کر رہا :ہے کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم: اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات ؟..یہ کلام اللہ کے الفاظ نئے ہیں یا پرانے،بات یہ نہیں بلکہ سوا ل تو یہ ہے کہ اُمّتِ مرحوم کی کس عقیدے میں نجات ہے، ؛ بیسویں صدی کے شروع میں جب علامہ یورپ کی سیر کو نکلے تو جگہ جگہ مسلمانوں کی تہذیب و عظمت کے اثرات اور نشانیاں دیکھیں مگر جب وہ سپین (ہسپانیہ ) میں قُرطُبہ کے مقام پر مسجدِ قُرطُبہ جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا شاہکار تھی دیکھی تو انتہائی دلگیرہوئے ،وہاں نماز ادا کی …اورمسلم امہ کو اُمّتِ مرحوم کہا ۔ کہ اِس وقت خلافت عثمانیہ پر بھی نزع کا عالم تھا ….
فاطمہ!تُو آبرُوئے اُمّتِ مرحوم ہے ؛ذرّہ ذرّہ تری مشتِ خاک کا معصوم ہے ؛ یہ سعادت حورِ صحرائی تری قسمت میں تھی ۔غازیان ِدیں کی سقّائی تری قسمت میں تھی ؛ یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہم ہے جو آج کے دانشوروں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ امّت مرحوم کی کس عقیدے میں نجات ہے ..؟یہاں انہوں ‘صیغہ حال استعمال کیاہے،معزز قارئین؛ علامہ اقبال کاابنِ مریم سے متعلق گہرا مطالع تھا ،جو کچھ اُنہوں نے ابنِ مریم سے متعلق کہا یہ عام آدمی کی فکر سے بہت دور ہے ،بلکہ یہ کہنے میں باک نہیں غلام صابر جیسے شاریح بھی کچھ کہنے سے قاصر نظر آتے ہیں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون اب بھی تشنہ ہے ، اسِ کے لئے معذرت ، اگر میرے خداکی مرضی ہوئی اور مزید وقت دیا تو پھر لکھوں گا کہ یہ سب کچھ کہنے کے ……!! معزز قارئین؛ علامہ اقبال کاابنِ مریم سے متعلق گہرا مطالع تھا ،جو کچھ اُنہوں نے ابنِ مریم سے متعلق کہا یہ عام آدمی کی فکر سے بہت دور ہے ، خوداقبال کو بھی شائد علم نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ،بانگِ درا کی اک نظم ”زُہد و رندی ”میں اقرار کیا ہے ؛ ‘اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے ؛کچھ اِس میں تمسخر نہیں و اللہ نہیں ہے ؛ اور یا مقبول جان اک بڑے دانشور ہیں( اُن کا نام ”اَوریا” یہی لکھا ہوتا ہے اصل لفظ ”اَو ر یا ہ” ہے یہ عبرانی زبان کے دو لفظ ،”اَو ر ” اور یاہ ہیں ،”اَو ر” کے معنی روشنی اور ”یاہ ” کے معنی خدا ، خدا کی روشنی یا خدا کا نور،اور یہ لفظ ”اَو ر ” پشتو زبان میں بھی بمعنی آگ کے مستعمل ہے،ایک دفع میں نے اُنہیں میل کر کے پوچھا تھا کہ اِس لفظ ”اَو ر یا ” کے کیا معنی ہیں اور اپنے کہاں سے لیا مگر وہ خاموش رہے….) دو برس ہوئے نئی بات کو انٹرویو میں اُن سے سوال کیا گیا” کوئی اقبال کی روائت پر نہیں چل سکتا۔
جواب میں فرماتے ہیں ،اِقبال کا سا را علم قر آن پر، اُس کی دانائی اور حکمت قرآن سے ہے اُس کی فکرقرآن سے….اقبال نے قرآن میں غوطہ لگایا ،اقبال جیسا ہونے کے لئے اتنا ہی غوطہ لگائے…” اِس میں شک نہیں ،جو کچھ اوریامقبول جان نے کہا اقبال صرف قرآن ہی میں غوطہ زن نہیں رہے بلکہ توریت اور انجیل میں بھی غوطہ زن رہے جو کچھ یہاں ابنِ مریم کے متعلق کہا سے یہی واضح ہوتا ہے کہ انہیںقرآن کے علاوہ توریت اور انجیل کا علم بھی تھا۔