اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے مفتاح اسماعیل وفاقی وزیر خزانہ کا درجہ دینے پر شدید احتجاج کیا ہے۔
قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس اسپیکر ایازصادق کی زیرصدارت شروع ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت آج بجٹ پیش کرکے آنے والی حکومت کا حق چھین رہی ہے، حکومت کی مدت 30 مئی کو ختم ہورہی ہے جب کہ حکومت ایک سال کا بجٹ پیش نہیں کرسکتی اور میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اس کا حصہ بننا چاہیے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ مفتاح اسماعیل کو مشیر سے وفاقی وزیر بناکر ووٹ کی عزت کو برباد کیا گیا اور ایک بار پھر پارلیمنٹ کے باہر فیصلے کیے جارہے ہیں، حکومت کے پاس عوام کے منتخب کردہ نمائندے رانا افضل موجود تھے لیکن اس کے بجائے ایک غیر منتخب نمائندے کو وفاقی وزیر بنایا گیا اور آج پہلی بار کوئی غیرمنتخب شخص پارلیمنٹ کا بجٹ پیش کرے گا۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ میاں صاحب کوباربارکہتا رہا کہ پارلیمنٹ کی عزت کریں لیکن آج غیرمنتخب شخص سے پارلیمنٹ کا بجٹ پیش کروا کر ووٹ کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے، اس شخص سے بجٹ پیش کروایا جارہا جو نہ قومی اسمبلی کا ممبرہے اور نہ سینیٹ کا ممبرہے۔ انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ میاں نوازشریف کے ساتھ وفاداری کریں اور بجٹ رانا افضل کوپیش کرنے دیں، وزیراعظم بھی منتخب ہیں وہ بھی بجٹ پیش کرسکتے ہیں۔
’’ ایک ماہ کی حکومت کے پاس سال کا بجٹ پیش کرنے کا اخلاقی جواز نہیں ‘‘ دوسری جانب تحریک انصاف کے شریک چیرمین شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ کی مہمان حکومت کے پاس ایک سال کا بجٹ پیش کرنے کا اخلاقی جواز نہیں، ستم ظریفی ہے غیر منتخب شخص بجٹ پیش کر رہا ہے ، مجھے رانا افضل صاحب سے ہمدردی ہے۔ آج آپ بجٹ منظور کروا لیں گے کیونکہ آپ کے پاس اکثریت ہے لیکن پارلیمنٹ میں نئی روایت کو جنم نہ دیں۔
ادھر پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ بجٹ پر تبصرہ کرنا بے معنی ہے کیونکہ اس بجٹ کی کوئی قانونی، اخلاقی اور سیاسی حیثیت نہیں اور اس بجٹ کا محرک صرف لالچ اور سیاسی عزائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخر وفاقی حکومت سارے سال کا بجٹ کیوں پیش کر رہی ہے جب کہ اس کی حکومت کے تقریباً دو ماہ سے بھی کم باقی رہ گئے ہیں، اخلاقی اور قانونی عنصر کو مدنظر رکھتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سندھ کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ صرف تین مہینے کا بجٹ پیش کرے گی۔