غالب کا ہم دیوان لیتے ہیں
Posted on October 28, 2018 By Majid Khan آپکی شاعری, شاعری
Sad
کبھی جب ہاتھ میں غالب کا ہم دیوان لیتے ہیں
تو پھر ہم شاعری کے علم کو بھی جان لیتے ہیں
سبھی کچھ دے دیا لیکن تسلی پھر نہیں ہوتی
کبھی دل لیتے ہیں میرا کبھی وہ جان لیتے ہیں
میں کیسے مان لوں ان کو کہ وہ انسان ہوتے ہیں
کسی کے کہنے سے جو کسی کی بھی جان لیتے ہیں
کہانی جب کبھی ہم اپنی بربادی کی لکھتے ہیں
بتائیں ہم تجھے کے ہم ترا عنوان لیتے ہیں
کدورت دل میں جو رکھتے ہیں وہ برباد ہوتے ہیں
پیار ان کو نہیں ملتا وہ دنیا چھان لیتے ہیں
سرِ محفل جو آکر ہاتھ میرا تھامتے ہیں وہ
مرے دل میں پھر انگڑائی کئی ارمان لیتے ہیں
وفا کے نام سے واقف نہیں تھے کل تلک جو بھی
وفا کو تولنے کی خاطر اب میزان لیتے ہیں
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں انہیں ہم جان لیتے ہیں
بڑوں کی بات سن کر وہ ادب سے مان لیتے ہیں
یوں خسرو، داغ، اقبال اور جگر سب یاد آتے ہیں
کبھی جب ہاتھ میں غالب کا ہم دیوان لیتے ہیں
ضرورت ہی کیا ہے ہم سے اب یوں منہ چھپانے کی
ترے چہرے کو ہم لاکھوں میں بھی پہچان لیتے ہیں
ذرا سی نیند کی خاطر ترستی ہیں کیوں آنکھیں
ہجر کے رت جگے اب کیوں ہماری جان لیتے ہیں
بہت سے لوگ ایسے ہیں کسی سے کچھ نہیں کہتے
بہت خودار ہوتے ہیں نہ وہ احسان لیتے ہیں
پرندے بھی نہیں آتے یہاں وہ جانتے ہیں کے
یہاں تو جان انسانوں کی ہی انسان لیتے ہیں
جہاں پر قتل ہوتے ہوں کوئی روکے نہیں ان کو
وہاں معصوموں پر بھی وہ نشانہ تان لیتے ہیں
محمد ارشد قریشی
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com