عطر و مشک و عنبر کی کیا بساط ہے لوگو دوجہاں مطہرہیں آپ ۖکے پسینہ سے
ماہ ِ ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی اہل ایمان میلادِ مصطفےٰ ۖ کو بھر پور عقیدت و احترام سے منانے کا اہتمام کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز کو سمجھیں سیدناابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے ارشاد فرمایا:
” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔”(صحیح بخاری)۔سیدنا انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہۖنے ارشاد فرمایا ” کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل وعیال، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔” (صحیح مسلم)۔ ایک اور روایت سیدنا عبداللہ بن ہشام اس طرح نقل کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریمۖکے ساتھ تھے اور آپۖ سیدنا عمر بن الخطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدناعمر نے عرض کیا یا رسول اللہ (ۖ)! یقینا آپ (ۖ)مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے جس پر نبی کریم ۖنے ارشاد فرمایا:” نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔” یعنی اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔زبانِ رسالتۖ سے یہ بات سننی تھی کہ سیدنا عمر نے عرض کیا ” ہاں! اللہ کی قسم، اب آپ (ۖ) مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔”
رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا ” ہاں اب اے عمر۔” یعنی اب تمہارا ایمان مکمل ہوا(صحیح بخاری) دکھی دلوں کا دکھوں کا مداوہ مل گیا غم کے ماروں کو نبی ۖ کا سہارہ مل گیا
مبارک ماہ ربیع الاول کا چاند چمکتے ہی عاشقانِ رسول ۖ گلیوں محلے ، گھروں اور مسجدوں کو سجانے لائٹیں لگانے جھنڈیاں لہرانے کا انفرادی اور اجتماعی پروگرام بناتے ہیں ۔ شہروں کے شہر گاؤں کے گاؤں دلہن کی سج دھج کر خوبصورتی کا نمونہ پیش کر رہی ہوتی ہے۔ بعض مقامات پر بیت اللہ شریف ، مسجدِ نبوی اور اسلامی ورثہ کی تصویرکشی کی جاتی ہے اور لوگ جوق در جوق دور دراز سے دیکھنے آتے ہیں ۔ علماء کرام ثناء خوان ، درسوں کے طالب علم ، مقامی علماء پیر فقیر اور عاشقان نبی کے دیوانے ذکر و فکر نعت خونی ،سیرت النی سے اہل ایمان کی ایمان والی بیٹریوں کو چارج کرتے ہیں ۔جو بہت اچھی کاوش ہے ۔
ضرورت اس عمل کی ہے کہ آقا ۖ سے عشق کا دعویٰ زبانی کلامی کرنے کی بجائے عملی طور پر پیش کیا جائے جیسا کہ ہم جانتے ہیں معراج شریف کے موقع پر اللہ پاک نے اپنے محبوب ۖ کو اپنے پاس بلا کر نماز کا تحفہ دیا۔ عشق کا تقاضہ ہے کہ محبوب کی پسند کو اپنی پسند سمجھا جائے اور پھر نماز کے متعلق آقا ۖ کا فرمان عالی شان ہے کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اگر ہم سچے عاشق ِ رسول ۖ ہے تو پھر اپنے پیارے نبی ۖ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کو بروقت ادا کیوں نہیں کرتے ؟
بات معراج شریف کی ہو رہی ہے تو عرض کروں جب اللہ پاک نے نبی کریم ۖ کو نماز کا تحفہ دیا تو پوچھا۔ اے میرے محبوب ۖ آپ نے میرے لئے کیا تحفہ لائے ہیں ؟ وہ اللہ جو جب ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا تو وہ چیز ہو جاتی ہے اس خالق مالک رازق کو تحفوں کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟ قربان جاؤں حضرت محمد ۖ پر آپ نے ارشاد فرمایا ۔ میں بھی تحفہ لایا ہوں ۔ آپ ۖ نے اللہ کے حضور ” عاجزی اور انکساری ” کا تحفہ پیش کیا !
اللہ پاک نے اپنے جلال ہونے کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا۔ اے میرے محبوب ۖ جو بندہ بھی ” عاجز اور انکسار ہو جائے گا مجھے عزیز ہو جائے گا”
ثابت ہوا ۔ ایک بات ۔ گلی محلوں مسجدوں اور گھروں کو دلہن کی طرح سجانے کے ساتھ ساتھ اپنی نمازوں کا فکر کریں اور نماز باجماعت ادا کرنے کا عملی ثبوت دیں ۔ دوسری بات تکبر گھمنڈ اور غرور کی بجائے عاجزی اور انکساری کو اپنی زندگی میں شامل کر کے اللہ تعالیٰ کے محبوب اور محبوب خدا ۖ کے پیارے ہو جائیں ۔ تاکہ شیطان کے بہکاوے میں آکر صرف نعرے اور کھوکھلے دعوے ہی نہ کرتے رہیں۔
تصور ! دکھ درد اور غم اب کیسا ؟ غم کے ماروں کو نبیۖ کا سہارہ مل گیا