تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا 12 ربیع الاول رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں ہر جگہ ، ہر گھر چراغاں ہی چراغاں ،نگر نگر ،ڈگر ڈگر ،گلی گلی ،محلے محلے ، دکانوں ،گھروں اور مساجد میںروشنی کے لئے خوب صورت لائٹوں کو لگایا اور سجایا جاتا ہے ، رنگ برنگی روشنی خوبصورت مناظر سب دل کا سکوں ، آکھوں کی ٹھنڈک، ہر طرف روحانیت ہی روحانیت کے نظارے ملتے ہیں ، کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کچھی کے دلوں میں سوال اٹھتا ہے ، کچھ سوچتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں بلا بجلی یا بیٹریوں سے چلائے جانے والے روشنی کے بلب اور لائٹوں کا کیا فائدہ ہے؟ اللہ پاک نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص (رضی اللہ عنہ) کی والدہ فرماتی ہیں، (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں)۔ (سیرت حلبیہ ج 1 ص 94، خصائص کبری ج 1 ص 40، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)۔
اسی طر ح نبی پاک کے دیوانے ، عاشقِ رسول ۖ ، ہر گھر ہر گلی ہر محلے ہر مسجد اور درسوں میں تاجدار ِ مدنیہ کی آمد کی خوژی میں جھنڈیاں لگاتے ہیں ،جھنڈے گاڑتے ہیں ۔۔۔۔ آئیں اللہ پاک کے پیارے محبوب ۖ کی پیاری والدہ ماجدہ کا فرمانِ عالی شان سیئے سیدہ آمنہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں، (میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا)۔ (سیرت حلبیہ ج 1 ص 109) یہ حدیث (الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم) میں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔ بچہ، جوان ،بزرگ، اپنی اپنی عقیدت، اپنی اپنی محبت، اپنی اپنی حب ، اپنی اپنی الفت،اپنی اپنی چاہت ، اپنا اپنا پیار ، اور اپنے اپنے عشق کے تحت میلاد مصطفےٰ ۖ میں شرکت کرتے ہیں۔ جلوس کا اہتمام کرتے ہیں ، اور نعروں سے اپنے اپنے دلو ں کو منور کرتے ہیں جیسا کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرہء رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔
اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ، یا محمد یا رسول اللہ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)۔(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)۔ محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، یمن، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)۔
Muhammad SAW
امام ابن حجر شافعی (رحمہ اللہ)۔ (م 852 ھ) فرماتے ہیں، (محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129) امام جلال الدین سیوطی (رحمہ اللہ)۔ (م 911 ھ) فرماتے ہیں، (میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے۔ جن پر ثواب ملتا ہے۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے)۔ (حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189) امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ (مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)۔
آخر میں ان بہن بھائیوں کے لئے جو میلاد شریف کی محافل کے لئے خصوصی لنگر کا انتظام کرتے ہیں، نیاز، شربت، حلوے اور روٹی پانی سے میلاد کے جلسے جلوسو ں کی خدمت کرتے ہیں ، یعنی لنگر پانی تقسیم کرتے ہیں ، وہ انفرادی اور اجتمائی طور پر مبارک باد کے مستحق ہے کیونکہ شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ (والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ، م 1176 ھ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین ص 8) اس سے پہلے کہ آپ سے اجازت چاہوں ۔۔۔ قرآن ِ پاک میں ارشاد ہے بے شک !! اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے۔اللہ پاک کا فرمانِ عالی شان ہے کہ، (بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران،164)۔
سبحان اللہ ۔ اللہ ربِ کریم فرما تے ہیں (اے حبیب ۖ!) تم فرماؤ (یہ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت (سے ہے) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں، وہ (خو شی منانا) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے)۔ (یونس، 58) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو) (الضحی 11، کنز الایمان) رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرات کعب بن زبیر، سواد بن قارب، عبد اللہ بن رواحہ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے۔ (معاذ ا للہ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ارشاد باری تعالی ہے، (عیسیٰ بن مریم نے عرض کی، اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک (کھانے کا) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ، 114، کنزالایمان)۔