عسکریت پسندی کے خلاف کریک ڈان مثبت پیش رفت ہے، تجزیہ کار

Crackdown

Crackdown

اسلام آباد (جیوڈیسک) ممبئی حملے کے ملزم ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کو چیلنج کیے جانے کو کئی حلقوں میں مثبت قرار دیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ پیش رفت ثبوت ہے کہ پاکستان جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈان کا عزم رکھتا ہے۔

ذکی الرحمن لکھوی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ اور اس کے عسکری ونگ لشکرِ طیبہ سے وابستہ رہے ہیں۔ انہیں ممبئی حملوں کا ایک اہم منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے۔ لکھوی کو دسمبر سن 2008 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2014 میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی کے خلاف درخواست وفاتی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے جمع کرائی تھی ، جس کی آج بروز منگل اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عدالتی سماعت کے بعد متعلقہ جج نے حکومت سے مقدمے کا سارا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں جماعت الدعوہ اور لشکرِ طیبہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہی ہیں اور پاکستانی طالبان کے بر عکس اس جماعت نے بطور تنظیم، کبھی پاکستان کے اندر کوئی عسکریت پسندانہ کارروائی نہیں کی۔ اسی لیے ماضی میں حکومتوں نے ان تنظیموں کے خلاف مصنوعی کارروائیاں کیں تاہم کئی حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت اب ان کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہے۔ سابق سینیٹر اور مسلم لیگ ن کے رہنما کرنل ریٹائرڈ طاہر مشہدی کے خیال میں حکومتی اقدام اس کی سنجیدگی کا مظہر ہے۔میرے خیال میں لشکر طیبہ ہو یا جماعت الدعوہ، ہمیں یہ دیکھے بغیر کہ تنظیم کون سی ہے، تمام جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنی چاہیں۔ یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ حالاں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں لیکن ان جیسی تنظیموں کی وجہ سے ہمارے دشمن ممالک پاکستان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑتے ہیں۔

ان کے خیال میں پاکستان پر بین الاقوامی دبا بھی ہے اور بھارتی وزیرِ اعظم مودی بھی پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایسے میں ہمیں اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان تنظیموں سے جان چھڑانی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان کہ کچھ طاقتیں پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کی سازشیں کر رہی ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم پر بین الاقوامی دبا بہت ہے۔ لیکن ہمیں ان تنظیموں سے جان چھڑانے کے لیے دبا نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے۔

لیکن ناقدین کے خیال میں پاکستان نے یہ کارروائی صرف بین الاقوامی دبا کی وجہ سے کی ہے اور ایک بار یہ دبا ختم ہوا، تو یہ تنظیمیں دوبارہ سے فعال ہوجائیں گی۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ مہدی حسن کے خیال میں کیونکہ پاکستان میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں بہت طاقت ور ہیں، ایسے میں ان جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں بہت مشکل ہیں۔ پہلے بھی حکومت نے مختلف تنظیموں پر پابندیاں لگائی تھیں لیکن انہوں نے نام بدل کر کام کرنا شروع کر دیا۔ اب بھی بین الاقوامی دبا کی وجہ سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ میرے خیال میں ان کے خلاف حقیقی کارروائی نہیں ہوگی۔

حکمران جماعت پی ٹی آئی دبا کے اس تاثر کو رد کرتی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں مصنوعی نہیں ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما ظفر علی شاہ نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ہم اپنے مفادات کے تحت ان تنظیموں کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں بین الاقوامی برادی کی کچھ شکایات جائز ہیں اور کچھ وہ بھارت کے کہنے پر لگاتی ہے۔ تو جو جائز شکایات ہیں ہم انہیں سن رہے ہیں۔ اس میں دبا کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

جماعت الدعوہ کے مرکز پنجاب میں کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت واقعی ان تنظیموں کے خلاف اقدامات کر رہی ہے ۔ پولیس کے ایک ذرائع نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، جماعت الدعوہ کے کئی لوگ انہیں چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں تک کے ان کی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے بھی کئی عہدیداروں نے استعفی دے دیا ہے اور وہ اب غیر سیاسی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ تو میرے خیال میں تو ان کے خلاف کریک ڈان حقیقی ہے اور لکھوی کے خلاف حکومتی اپیل اس بات کا اشارہ ہے کہ ان پر مزید سخت وقت آئے گا اور انہیں کوئی رعایت نہیں ملے گی۔