کراچی (جیوڈیسک) برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ امریکی صدر اوباما کی بھارت آمد سے قبل پاکستان کا عسکریت پسند گروپوں پر پابندی لگا نے کا مقصد بھارت پر امریکی دباو ڈالنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کو حل کرے۔ حقانی پر پابندی پاکستان پر امریکی دباو کا نتیجہ ہے۔ عسکریت پسند گروپوں پرپابندی سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سلامتی کے معاملات پر ایک طویل عرصے سے جاری عدم اتفاق کا خاتمہ ہو گیا۔
عسکریت پسندی پاکستان کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے ، پاکستانی حکام پہلے سے زیادہ اس خطرے کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان گروپوں پر پابندیاں ہمیشہ برقرار رہیں گی اور نئے ناموں کے ساتھ اب انہیں نہیں آنے دیا جائے گا۔حکام کا کہنا ہے کہ اوباما کے دورہ نئی دہلی سے قبل گروپوں پر پابندی کا مطلب ہے کہ پاکستان کو یہ توقع ہے کہ امریکا بھارت پر دباو ڈالے گا کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کی طرف قدم اٹھائے۔مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ گروپوں کے خلاف پابندی کا فیصلہ عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان کے سخت رویے کی غمازی کرتا ہے۔
ان گروپوں کے بارے کہا جاتا تھا کہ انہیں طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ پابندی عسکریت پسند گروپوں کی سرگرمیوں کو روکنے کی سمت پہلا قدم ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ پابندی کا اعلان نئے فیز کا نکتہ آغاز ہے۔ اگلا قدم ان گروپوں کا خاتمہ ہے۔ اخبار کے مطابق دونوں گروپوں پر افغانستان اور مقبوضہ کشمیر حملوں کی حمایت کا الزام تھا۔کئی سالوں سے امریکی حکام فغانستان میں مغربی فورسز پر “حقانی نیٹ ورک “ کی طرف سے حملوں کی شکایت کرتے آرہے تھے،جب کہ بھارتی حکام مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حملوں کی حمایت کا الزام جماعت الدعوہٰپر الزام لگاتے رہے۔پاکستان کے سرکاری حکام نے اس پابندی کی تصدیق کر دی ہے۔
سینئر وزارت خارجہ حکام کا کہنا ہے کہ گروپوں کے اکاونٹس منجمد کردیے گئے اور حکام ان کی جائیدادیں ضبط کرنے جارہے ہیں۔اسلام آباد میں ایک سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اب عسکریت پسندوں کے خطرات کو زیادہ تسلیم کرتا ہے جو ملک کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ماضی میں یہ گروپ پابندی لگنے کے بعد نئے ناموں کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں۔ تاہم ایک سینئر پاکستانی انٹیلی جنس عہدیدار نے اخبار کو بتایا کہ پابندیاں برقرار رہیں گی اب واپس جانے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ پاکستان کے لئے خطرے کا فیصلہ کن حل کرنا ہے۔