ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے دو سینئر ذمے داران نے دھمکی دی ہے کہ امریکا یا اس کے حلیفوں کی جانب سے ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کا “فوری اور بھرپور جواب” دیا جائے گا۔ یہ موقف سعودی عرب میں ارامکو کمپنی کی تیل کی دو تنصیبات پر حملے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ایران اپنے ذمے داران کی زبانی ایک سے زیادہ مرتبہ اس حملے سے لا تعلقی کا اعلان کر چکا ہے۔
ایرانی قومی سلامتی کی سپریم کونسل کے سکریٹری علی شمخانی کا کہنا ہے کہ امریکا یا اس کے علاوہ کسی نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی تو تہران کی جانب سے اس کا فوری اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یہ بیان نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی “مہر” نے جاری کیا۔
ادھر ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ کمانڈر حسین سلامی نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ “اس حملے کے سلسلے میں سب ہی کی جانب سے ایران کو اندھادھند ملامت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ایران طاقت ور ہے”۔
اس سے قبل تہران میں سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے میں امریکی مفادات کے شعبے کو ایک پیغام پہنچایا گیا۔ پیغام میں ایرانی وزارت خارجہ نے امریکا کی جانب سے کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی سے خبردار کیا۔ ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA نے مذکورہ پیغام کے حوالے سے بتایا ہے کہ “اگر ایران کے خلاف کارروائی ہوئی تو تہران اس کا فوری جواب دے گا اور ایرانی رد عمل محض خطرے کے ذریعے تک محدود نہیں رہے گا”۔
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی نیوز چینل “CNN” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ “ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کا نتیجہ ایک جامع جنگ اور بھاری نقصان کی صورت میں سامنے آئے گا”۔
ایران کی جانب سے تردید اور دھمکیوں کی صورت میں رد عمل سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے جب کہ بہت سے شواہد اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ تہران سعودی عرب میں ارامکو کی تیل کی تنصیبات پر حملے میں براہ راست ملوث ہے۔
سعودی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت کا انکشاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ میزائلوں کی تصاویر کے معائنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ان کا ذریعہ ایران تھا۔ ترجمان کے مطابق تیل کی دونوں تنصیبات پر حملوں میں 25 ڈرون طیارے اور کروز میزائل استعمال کیے گئے۔
اسی طرح امریکی چینل CBS News کی رپورٹ کے مطابق امریکی ذمے داران کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ناقابل تردید ثبوت ابھی تک سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔ یہ شواہد سیٹلائٹ تصاویر کی شکل میں ہیں جن میں مغربی ایران میں الاہواز کے فضائی اڈے پر ایرانی پاسداران انقلاب کے عناصر کو اس حملے کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
چینل نے ایک امریکی ذمے دار کے حوالے سے بتایا کہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے ہفتے کے روز سعودی عرب میں ارامکو کمپنی کی تیل کی دو تنصیبات پر پر ہونے والے حملوں کی منظوری دی تھی۔ تاہم ذمے دار کا کہنا ہے کہ خامنی ای نے یہ شرط رکھی تھی کہ کارروائی اس طریقے سے پوری کی جائے کہ تہران حملے میں کسی بھی طور اپنے ملوث ہونے کی تردید کر سکے۔
مبصرین کے خیال میں خامنہ ای کی جانب سے حملے کی منظوری دینے کی بات ممکنہ طور پر اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ ایران میں امریکی انٹیلی جنس کے ایجنٹوں کی جانب سے ایرانی قیادت کی گفتگو خفیہ طور پر سنی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ خامنہ ای اپنے خطبوں اور مختلف مواقع پر کئی مرتبہ خبردار کر چکے ہیں کہ ایرانی “ریاست کے اداروں میں دشمن کے لوگ سرائیت کر گئے ہیں”۔