اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا جائے اور وہاں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح قوانین کے نفاذ کے لیے اصلاحات کی جائیں۔
اسلام آباد میں یوم پاکستان پر ’احتساب ریلی‘ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج اپنا کام کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب تک سویلین حکومت اپنا کام نہیں کرے گی تو دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکتے۔
انھوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جب تک ملک کا وزیراعظم قیادت نہیں کرے یہ مسئلہ نہیں جائے کیونکہ فوج اکیلے یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتی، اس کے لیے پوری قوم کو اکٹھا ہونا پڑے گا اور اس کے لیے ایک منصوبہ بنانا پڑے گا۔
عمران خان نے کہا کہ ملک اس وقت ترقی نہیں کر سکتا جب تک یہاں سے دہشت گردی حتم نہیں ہو جاتی اور یہ اس وقت ہوگی جب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنائے گئے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
عمران خان نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت نے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا ہے جہاں پولیس کو غیر جانبدار، آزاد اور غیر سیاسی ہے۔
انھوں نے کہا کہ قانون سازی کے تحت پولیس کو غیر سیاسی بنایا اور میرٹ پر لائے ہیں جبکہ پنجاب اور سندھ میں پولیس میں سیاسی مداخلت، سیاسی بھرتیاں کر کے اور ان سے غلط کام کروا کر لوگوں کی زندگی برباد کی دی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ قومی ایکشن پلان کے تحت دوسرا کام مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کا کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان اقدامات کے تحت مدارس کے بچوں کو موقع دینا ہے کہ وہ بھی ملک میں بڑے بڑے عہدوں پر آ سکیں اور اچھی اچھی نوکریاں کر سکیں۔
انھوں نے کہا کہ’اس وقت 22 سے 26 لاکھ بچے مدارس میں ہیں۔ ہمارا کام ہے کہ ان کو دین کے علاوہ سائنسز پڑھائیں اور مدارس میں اصلاحات کا کام کسی اور صوبے نہیں کیا بلکہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا نے کیا ہے کیونکہ یہ قومی ایکشن پلان کا حصہ تھا۔ ‘
عمران خان نے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے کہا کہ جب تک قبائلی علاقوں پر توجہ نہ دی گئی اور یہاں کے لوگوں سے انصاف نہ کیا، ان کو دوبارہ آباد نہ کیا تو جیسے ہی فوج واپس آئی تو پھر یہ دوبارہ پاکستان کے لیے عذاب بن جائیں گے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا جائے، اور اصلاحات کے کر کے آہستہ آہستہ ملکی قانون کا وہاں نفاذ کیا جائے کیونکہ فوج وہاں سارا وقت ضرب عضب آپریشن نہیں کر سکتی اور جب وہ واپس آئی تو پھر کیا ہو گا، ابھی ضرورت ہے کہ فاٹا اصلاحات کی۔
اگر ہم نے قبائلی علاقوں کو آباد نہ کیا، یہاں سے دہشت گردی ختم نہ کی تو جیسے ہی یہاں سے فوج واپس آئے گی تو یہ دوبارہ پاکستان کے لیے عذاب بن جائیں گی۔‘
عمران خان نے کہا کہ وفاقی حکومت تو اصلاحات کے حوالے سے کچھ نہیں کر رہی لیکن ہم اس میں پہل کریں گے۔
کوئٹہ میں گذشتہ پیر کو ہونے والے دھماکے میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے انھوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج اپنا کام کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب تک سویلین حکومت اپنا کام نہیں کرے گی تو دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکتے۔
عمران خان نے جلسے کے اختتام پر کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب آج مل کر عہد کریں کہ آئندہ برس آزادی کا جشن حقیقی طور پر منائیں۔
کیونکہ اس وقت تک دو کینسرز پر قابو پا چکے ہوں گے جس میں ایک بدعنوانی کا سرطان ہے جس کی وجہ سے غربت ہے، امیر غریب میں فرق ہے اور ملک کا پیسہ باہر جا رہا ہے، روز گار نہیں ہے اور دوسرا کینسر دہشت گردی کا ہے۔
خیال رہے کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل نے بھی جمعے کو کہا تھا کہ قومی ایکشن پلان پر پیش رفت میں کمی آپریشن ضرب عضب کو متاثر کر رہی ہے۔
کوئٹہ میں خودکش دھماکے میں 71 اموات کے بعد ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنائے گئے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔