کراچی (جیوڈیسک) پاکستان میں یورپی یونین کے نمائندہ کے دفتر میں تعینات ناظم الامور اور ہیڈ آف ٹریڈ جان سورنسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر اورفوجی عدالتوں کے قیام پر یورپی یونین کے رکن ممالک کو تحفظات لاحق ہیں جنہیں دور نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو آئندہ مدت کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس میں توسیع کے حوالے سے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
پاک رومانیہ بزنس کونسل کے دفتر کے دورے کے موقع پرجان سورنسین نے کہا کہ پاکستانی ایکسپورٹرز کو ہم اس بات سے آگاہ اس لیے کررہے ہیں کہ پاکستان میں حکمران طبقے کا تعلق کاروبار سے ہے جنہیں آئندہ مدت کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس برقرار رکھنے کی غرض سے پاکستان کا کاروباری طبقہ ہی درست انداز میں آگاہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس اسکیم یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک تحفہ ہے، پاکستان کی تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے بھرپور استفادہ اور اسکیم کے ذریعے ملکی برآمدات میں اضافہ کرے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ پاکستانی حکومت اورنجی شعبے کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد سفارشات پر مبنی رپورٹ مرتب کرکے یکم جنوری 2016 کو ہونے والے یورپی یونین کے پارلیمنٹ اجلاس میں پیش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوری 2014 میں جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس ملنے کے بعد پاکستان کی برآمدات میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے جو تقریباً 1 ارب یورو ہے، یورپین مارکیٹ میں پاکستانی پھلوں اورفشریز کواعلیٰ مقام حاصل ہے اور یورپین ممالک میں ان کی برآمدات میں اضافے کے وسیع مواقع دستیاب ہیں۔
جان سورنسین نے پاکستان میں انسانی حقوق اور لیبرقوانین کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تاجر برادری پر زور دیاکہ وہ حکومت پاکستان سے جی ایس پی اسکیم کے معاہدوں پر عملدرآمد کرائیں۔ اس موقع پر پاکستان رومانیہ بزنس کونسل کے چیئرمین سہیل شمیم فرپو نے وفد کے ارکان کوبتایا کہ طویل دورانیے سے دہشت گردی کے باعث پاکستان اب بھی حالت جنگ میں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک پاکستان میں فوجی عدالتوں کے قیام کو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں دیکھیں کیونکہ پاکستان میں حالیہ اقدامات دہشت گردی کی روک تھام کی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے کیے گئے ہیں لہٰذا یورپین یونین کے رکن ممالک سے پاکستانی تاجروں کی اپیل ہے کہ وہ مستقبل میں بھی پاکستان کو جی ایس پی پلس اسٹیٹس اسکیم کے حامل ممالک کی فہرست میں رکھنے کیلیے تعاون کریں۔
انہوں نے پاک رومانیہ ٹریڈ کونسل کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 4 سال قبل تک یورپی یونین کے رکن ملک رومانیہ کے ساتھ پاکستان کی باہمی تجارت کی مالیت بمشکل 20 ملین ڈالرتک محدود تھی جواب بڑھ کر 200 ملین ڈالر تک ہو گئی ہے جس میں پاک رومانیہ بزنس کونسل کا اہم کردار ہے جو رومانیہ سے کاروبار کرنے والے پاکستانی خواہشمندوں کو نہ صرف مطلوبہ معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ ان کی بھرپوررہنمائی بھی کرتی ہے۔ اس موقع پر انہوں نےکونسل کے قیام کے اغراض ومقاصد ودیگرامور سے متعلق بریفنگ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تعارف کرایا۔