تحریر : پروفیسر رفعت مظہر نائن الیون سے اب تک پاکستان حالتِ جنگ میں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو اِسے اندھی اور بے چہرہ جنگ کہا جاتا رہا لیکن اب تو دشمن کا مکروہ چہرہ صاف نظر آ رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے تو 2016ء کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دیا تھا لیکن ایسا ہو نہ سکا ۔ جس کی واحد وجہ ہمارا پڑوسی بھارت ہے جس کا مخبوط الحواس وزیرِ اعظم نریندر مودی آج بھی ”اکھنڈ بھارت” کا احمقانہ خواب سجائے بیٹھا ہے۔ اُس کے خیال میں ایٹمی پاکستان اُس کے خواب کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اِسی لیے بھارت پاکستان میں اندرونی طور پر افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کرتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا دوسرا پڑوسی افغانستان بھی بھارت کا دست و بازو بنا بیٹھا ہے اور بھارت افغانستان کے راستے تخریب کاری کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ صرف پاکستانی طالبان نامی دہشت گرد کسی بھی صورت میں اتنی طویل جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ۔ یہ تو بھارت ، افغانستان گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے جو دہشت گرد ابھی تک اپنی تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں ۔ یہ جنگ کتنی طوالت پکڑے گی ، اِس کا اندازہ لگانا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔
جب کوئی ملک حالتِ جنگ میں ہو تو کچھ ہنگامی اقدام کرنے پڑتے ہیں ۔ پاکستان میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی انہی ہنگامی اقدامات میں سے ایک ہے جس پر کسی کو چیں بچیں ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ سیاسی مو شگافیوں کا مقام ہے کیونکہ یہ معاملہ ملکی سلامتی کا ہے ۔ ویسے بھی پاکستانی فوج کسی دشمن ملک سے نہیں آئی ، یہ اپنے ہی بھائی بیٹے ہیں جو قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔ ہر روز کسی نہ کسی کڑیل جوان کے ماتھے پر شہادت کا جھومر سجتا ہے اور کسی نہ کسی دَر پر صفِ ماتم بچھتی ہے ۔ ہمارے وہ رہنماء جو حفاظتی حصار کے بغیر ایک قدم بھی اٹھانا پسند نہیں کرتے ، کیا اُنہیں ادراک ہے کہ میرے وطن کے سجیلے جوان اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ناموسِ وطن کی حُرمت پر قُربان ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں اگر صرف دہشت گردی کے مقدمات کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں تو ”بی بی جمہوریت” کے شیدائیوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اُٹھنے لگتے ہیں۔
جمہوریت کے اِن شیدائیوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اُن کے اقوال و افعال میں جمہوریت ہے کہاں جو وہ جا و بے جا جمہوریت کی رَٹ لگا کر ٹسوے بہانے لگتے ہیں ۔ ہمارے ہاں تو جمہور کی پکار ہمیشہ صدا بصحرا ہی رہی اور جمہوریت پسندوں کو جمہور کی یاد صرف اُس وقت آتی ہے جب وہ ووٹوں کی بھیک مانگنے دَر دَر کے بھکاری بنے پھرتے ہیں ۔ جونہی یہ مرحلہ طے ہوتا ہے رہبر اپنے عالیشان محلوں میں اور مجبور و مقہور فُٹ پاتھوں پر جنہیں دیکھ پر یادآ جاتا ہے کہ
فرشتوں نے جس کو سجدہ کیا تھا وہ کل فُٹ پاتھ پر مُردہ پڑا تھا
انتخابات جیت کر یہ حلف تو دھرتی ماں کی وفاداری کا اُٹھاتے ہیں لیکن یاد اِنہیں صرف اپنی ”توندیں” رہتی ہیں جو بھرنے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔ پارلیمنٹ صرف طنز و تعریض اور گالی گلوچ کے لیے رہ گئی ہے اور اب تو ایک قدم آگے بڑھ کر جوتم پیزار کے ”دِل خوش کُن” مناظر بھی نظر آنے لگے ہیں ۔ ایسے میں اِنہیں جمہوریت کی رَٹ لگاتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی ۔ ہم یہ تو ہر گز نہیں کہتے کہ فوجی حکومت یا آمریت بہتر ہے لیکن اگر بہ امرِ مجبوری فاجی عدالتوں جیسے اقدام اُٹھائے جاتے ہیں تو اِس میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ یہ عدالتیں عام انسانوں کے لیے نہیں بلکہ اُن دہشت گردوں کے لیے قائم کی جاتی ہیں جو لازمۂ انسانیت سے تہی ہیں اور اپنی وحشت و بَربریت میں خونی درندوں سے کہیں بڑھ کر۔
اگر فوجی عدالتیں شجرِ ممنوحہ ہی ٹھہریں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہر مشکل میں فوجی بھائیوں کو ہی کیوں پکارتے ہیں ؟۔ اُنہیں صرف سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہی کیوں نہیں رہنے دیتے ۔ سیلاب آئیں تو سب سے پہلے ریسکیو کے لیے فوج پہنچتی ہے ، زلزلے آئیں تو فوجیوں کی ضرورت ، کوئی بڑا سانحہ ہو جائے تو فوج ہی اولین ترجیح ، قدرتی آفات پہ قابوپانا فوج کے بغیرممکن نہیں اور گولی کھانی ہو تو فوجیوں کا سینہ حاضر لیکن جب مکروہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہو تو فوجی عدالتوں کی بجائے سول کورٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگتا ہے ۔ آخر یہ دو عملی کیوں ؟۔ اگر فوج سے صرف ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا کام ہی لینا ہے تو بسم اللہ پھر اُنہیں اپنا کام کرنے دیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو اُنہیں بہت سے اضافی کام سونپ دیئے ہیں جنہیں وہ بخوشی قبول کر رہے ہیں حالانکہ یہ اُن کی بنیادی ذمہ داری ہر گز نہیں اِس لیے قوم کو اُن کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے