اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے کیس کا فیصلہ آج سنائے گی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی بینچ نے اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف 35درخواستوں کی سماعت کی۔
فریقین کے دلائل 27جون کو مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار، جبکہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں میں فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلا تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
ان درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام موجودہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے، فوجی عدالتی نظام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان درخواستوں میں یہ موقف بھی اپنایا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی قانون بنیادی انسانی حقوق اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہو، تو سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ایسے کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ اگرچہ سپریم کورٹ کو آئین سازی کا اختیار نہیں ہے، لیکن اُسے آئین کی تشریح کا اختیار ضرور حاصل ہے۔
ان درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق قانون کو کالعدم قرار دے۔ وفاق کا موقف ہے کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور ایسے حالات میں وہی اقدامات کیے جاتے ہیں، جو ملک اور اس کی عوام کے مفاد میں ہوں۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے درخواست گزاروں کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوتا لہٰذا ان درخواستوں کو مسترد کردیا جائے۔