اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فوج نے گزشتہ چار پانچ سالوں میں جس طرح سے بڑی حد تک دہشت گردی پر قابو پایا ہے اور اس کو منطقی انجام تک پہنچا رہی ہے اس میں فوجی عدالتوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے سانحہ اے پی ایس کے بعد فوجی عدالتیں پہلی بار2015 میں قائم ہوئی اور اس کی تجوید2 سال کے لیے2017میں ہوئی جوجنوری 2019میں ختم ہوچکی ہے،ہم نے دیکھا کہ فوجی عدالتوں نے جس موثر انداز میں اپنا کام شروع کیا اس کی نظیر تاریخ میں کہیں نہیں ملتی،گو کہ ان عدالتوں کا مقصددہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کو جلد از جلد انصاف فراہم کرنے کے ساتھ اس ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچانا تھااور اس پرقوم نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے سنگین جرائم میں ملوث دہشت گردوں کو قرارواقعی سزا ملی ،ایک رپورٹ کے مطابق چار سالوں کے دوران فوجی عدالتوں میں 717مقدمات آئے 646کیسوں کے فیصلے ہوئے اور فوجی عدالتوں کی جانب سے 345دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی اور56 مجرمان کو پھا نسی بھی ہوئی ، اس کارکردگی کے باوجود بعض سیاستدانوں کو ان عدالتوں پر اعتراض کیوں ہے ؟ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جن مقاصد کے لیے یہ فوجی عدالتیں بنائی گئی تھی وہ تمام مقاصد پورے ہوچکے ہیں ؟۔
فوجی عدالتوں کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ عام عدالتوں کے حوالے سے انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کے معاملات اس قدر آہستہ ہوتے ہیں کہ بہت سے سنگین مقدمات ایک طویل عرصے تک لٹکے رہتے ہیں اور بعض دفعہ تو اس قدر وقت لگ جاتاہے کہ جب تک مقدمہ عدالتوں تک آتاہے اس میں یا گواہ دستیاب نہیں ہوتے ،یا مرجاتے ہیں یا پھر اس مقدمے کاواقعہ ہی بھول چکے ہوتے ہیں، آج گواہان کو ماردیا جاتاہے ولی خان بابر کے سات کے سات گواہوں کو ماردیا گیا،کیونکہ کیس کی طوالت جب اس قدر طویل ہوجائے تو معاملات سدھرنے کی بجائے بکھرنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس طرح دہشت گرد قانون کی گرفت سے نکل جاتے ہیں،فوجی عدالتوں کے قیام پرموثر رد عمل آنے کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان عدالتوں کی آئینی حیثیت کی توسیع کی جائے تاکہ ملک میں ایک طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک یہ اپنا کام مکمل کرسکیں،کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے سیاسی تنازعوں کا حصہ نہیں بنانا چاہیے ،یہ ایک قومی اہمیت کا معاملہ ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ سیاسی جماعتیں اس اہم قومی مسئلے کو سیاسی تنازعے میں تبدیل کررہی ہیں جو سراسر دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے کے مترادف ہے۔
پیپلزپارٹی کے قائدین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماضی میں انہوں نے ان عدالتوں کوسپورٹ کیا،اب چونکہ پیپلزپارٹی کی بڑی لیڈرشپ اس وقت اکاونٹبلیٹی کے دباؤ میں ہے لہذا اسی وجہ سے انہوں نے فوجی عدالتوں کے معاملے میں سیاست کھیلنے کا فیصلہ کیاہواہے ، پیپلزپارٹی کا سوچنا یہ ہے کہ اگر ان پر اکاونٹبیلٹی کے امکانات بڑھتے ہیں تو وہ فوجی عدالتوں کے معاملے میں حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کرینگے اس کا مطلب یہ ہواکہ اگر اکاؤنٹبلیٹی یعنی ان پر سے احتساب کا عمل اگر روک د یا جائے توہم اسی طرح فوجی عدالتوں کی توسیع میں حکومت کے ساتھ دے سکتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دور حکومت میں ساتھ دیا تھا، مگر اب چونکہ حکومت کا بے لاگ احتساب مشن چل رہاہے اس لیے پیپلزپارٹی اس عمل میں حکومت کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے انکار کررہی ہے ، جو کہ سراسر سیاسی بلیک میلنگ کے مترادف ہے یعنی پیپلزپارٹی ایک سیاسی لین دین کی تلاش میں ہے اسی لیے ایک قومی مسئلے میں ان کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے جس میں ان کی جانب سے کوئی اصول پنہاں نہیں ہے ،بلکہ صرف اور صرف سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر ہی فوجی عدالتوں کی مخالفت کی جارہی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اگر یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے بے نظیر کی شہادت کے فوری بعد جو پاکستان کھپے کا نعرہ لگاکر قوم پر احسان کیاتھا اس کو ہم اٹھتے بیٹھتے دھراتے رہیں تو یہ ان کی بھول ہوگی وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خدانخواستہ اگر یہ لوگ پاکستان نہ کھپے کانعرہ لگاتے توآج جو یہ مزے سے بلاول ہاؤس میں بیٹھے ہیں یہ یہاں نہ ہوتے بلکہ یہ سب کے سب پہاڑوں پر موجود ہوتے ہیں اس کے علاوہ جہاں تک اس ملک کی عوام کا معاملہ ہے وہ سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس ملک کی فوج کے جوانوں اور افسروں نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں جن میں نہ صرف سپاہیوں کا نام آتا ہے بلکہ بے شمار فوجی افسروں نے بھی دشمنوں سے لڑے لڑتے اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیاہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ایک عام آدمی کی زندگی محفوظ ہوسکے ۔یہ ان ہی افسروں اورنوجوانوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ماضی کی نسبت ہم بڑی حد تک دہشت گردی سے محفوظ زندگی گزاررہے ہیں۔
ان قربانیاں دینے والے فوجیوں کے بچے کمسنی میں ہی والد کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں جو بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ہمیشہ دروازے پر والد کی آمد کا انتظار کرتے ہیں اس شخص کی آمد کا انتظار جو اب کبھی لوٹ کر ان کے پاس نہیں آئیگا جو اپنے بچوں کو چھوڑ کر خود اس قوم کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے قربان ہوگیا ہے جن کے والدین نے ہرقسم کی مصلحتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے وطن عزیز کی بہتری اور اس کی بقاء کا سوچا۔پھر بھلا سیاسی جماعتوں کی کونسی ایسی مصلحتیں باقی رہ جاتی ہیں جو ان دہشت گردوں کے خلاف بنائی گئی فوجی عدالتوں کے خلاف ہی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ؟ یہ وہ وقت ہے جب یہ معلوم کرنا بہت آسان ہے کہ کون ہے ایساسابق یہ موجودہ حکمران جو وطن پرست ہے اور اس ملک کی سرحدوں اور اس میں بسنے والی عوام سے محبت رکھتاہے مطلب جس کسی دہشت گرد نے سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات سے اس ملک کو نقصان پہنچایا اس کی سزا کیا ہونی چاہیے اس سوال کا جواب دیناتو ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو ہر لحاظ سے قومی ایشوز پر اپنی جان قربان کرنے کو تیاررہتے ہیں،مگر وہ کیا ایسے سوالوں کاجواب دیں گے جن کو اپنے اقتدار اوراپنے بچوں سے زیادہ اور کچھ بھی نہ دکھتا ہو، جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں کو قربان کرنے والوں سے بڑی قربانی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
یہ وہ لوگ ہیں جو صرف سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ زلزلوں اور سیلابوں میں بھی عوام کو بچاتے بچاتے خودبھی شہید ہوجاتے ہیں،تاریخ ان فوجی افسروں اور سپاہیوں کی شہادتوں سے بھری پڑی ہے ،جہاں اس قوم نے دہشت گردوں کے ہاتھوں تقریباً ستر ہزار سے زائد جانیں قربان کی وہاں ان دہشت گردوں سے لڑتے لڑتے گزشتہ ڈیڈھ عشرے میں دس ہزار اسے زیادہ فوجیوں نے اپنی جانوں کو قربان کردیاہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ،جن کے والدین سے کوئی پوچھے تو وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بیٹے کی یہ ہی خواہش تھی کہ وہ وطن کے لیے شہید ہوجائے اور شہادت ہی اس کی آرزو تھی، کچھ روز قبل بھی افغان باڈر پر کچھ جوان افسروں اور سپاہیوں کی شہادت کی داستان رقم ہوئی ہے جبکہ گزشتہ برس شہید ہونے والے کم سن شہید افسر اسفند یار بخاری جس کے پاس سب کچھ تھا مگر وہ صرف فو ج میں اس لیے شامل ہوا کہ وہاں صرف شہادت ہے قوم کے لیے کچھ کرنے کا جزبہ ہے اورپاک فوج کے افسر سیکنڈ عبدالمعید اور سپاہی بشارت جس نے قوم کے لیے شہادت کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھا،مگر کوئی ایسا شخص کیوں ان مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھے گا جس نے کبھی اس ملک کو اپنا سمجھا ہی نہ ہو اور کبھی یہ سوچاہی نہ ہوکہ جس ملک نے ان کو حکمرانیاں دی جس ملک کی عوام نے انہیں عزت دی اگر دو گھڑی ان کی بھلائی کے لیے اپنا اناؤں کی قربانیاں دیدی جائے تو اس میں برائی ہی کیاہے لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ سیاستدان صرف دو گھڑی بیٹھ کر یہ سوچ لیں کہ فوجی عدالتوں کا قیام ایک قومی مسئلہ ہے تو اس پر پھر بحث کرنے کی گنجائش بھی ختم ہوجاتی ہے۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔