تحریر: سید انور محمود آج آپ پاکستان کے کسی بھی حصے میں چلے جایں آپکو صرف مسائل کے بابت ہی سنائی دیگا، کوئی بےروزگاری کو رو رہا ہوگا تو کوئی تعلیم کی پستی میں جاتی ہوئی صورتحال کو، کہیں صحت کی سہولت نہیں تو کہیں پانی نہیں ہے، تھرپارکر میں موت بچوں کو نگل رہی ہے، پیٹرول غائب ہے تو بجلی کے مسلئے نے پورئے پاکستان کو متاثر کیا ہوا ہے۔ عام لوگوں میں عدم برداشت پیدا ہوگیا ہے ۔ان تمام مسائل کے ہوتے ہوےپاکستان ایک ایسی جنگ کا شکار ہے جسے دہشتگردی کہا جاتا ہے۔ جس میں دشمن مذہب کے نام پر اپنی درندگی کا مظاہرہ کررہا ہے، اور اپنی درندگی کی دھاک جمانےکےلیے عورتوں اور معصوم بچوں کو ہلاک کررہا ہے، یہ ذلیل دشمن جو پاکستان میں طالبان دہشتگردکے نام سے پہچانا جاتا ہےاسقدر بزدل ہے کہ چھپ کروار کرتا ہے، کبھی بےگناہوں کو بم بلاسٹ کے زریعے اور کبھی خودکش حملوں کے زریعے شہید کرتا ہے۔آج انسانیت کو دہشتگردی کے ہاتھوں شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ دہشتگردی مسلمہ طور پر ایک لعنت و ناسور ہے، دہشتگردوں کا تعلق دنیا کے کسی بھی مذہب سے نہیں ہےیہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان، انہیں اگر ہم درندہ کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔سولہ دسمبر 2014ء کے سانحہ پشاور کے بعد ملک کی ساری سیاسی قیادت دہشتگردی کے خلاف اکھٹا ہوگئی تھی، اُن میں وہ بھی شامل تھے جو ازل سے ہی پاکستان مخالف اوردہشتگردوں کے حامی ہیں، لیکن صورتحال کو دیکھتے ہوئے سب ہی پشاور کے سانحے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بول رہے رہے تھے۔
آئے دن ہونے والی دہشتگردی ہمیں برباد کررہی ہے، پشاور کے ملٹری اسکول میں سولہ دسمبر کو ہونے والی دہشتگردی کےواقعے نے پورئے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے اورپورئے ملک کے والدین جن کے بچے اسکولوں میں جاتے ہیں خوف اور دہشت کا شکار ہیں۔ پشاور میں ہونے والی درندگی کے پہلے ذمہ داراس ملک کےوزیراعظم نواز شریف ہیں جو ایک سال تک مذاکرات کا ڈرامہ رچاتےرہے، نواز شریف کے شریک کاروں میں تحریک انصاف اور اُسکےسربراہ عمران خان، جماعت اسلامی اور اُسکی قیادت، دونوں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق، لال مسجد کا شقی القلب ملا عبدالعزیز اور کچھ لکھنے والے بھی شامل ہیں جن میں اوریا مقبول جان اورجنگ گروپ کےانصار عباسی سرفہرست ہیں ۔پشاور کے بدترین سانحے کے بعد ملک کی سیاسی وعسکری قیادت نے فیصلہ کیا اب دہشت گردوں کےخلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آچکا ہے اور فوج نے جہاں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا وہیں سزا پانے والے قیدیوں اور خاصکر سزائے موت کے قیدیوں کی سزاؤں پرعملدرآمد پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی۔
کل جماعتی کانفرنس کے دوران دہشتگردوں پر تیزی سے مقدمہ چلانے کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام پرساری جماعتیں متفق ہوگئی تھیں لیکن جمعیت علماء ا سلام اور جماعت اسلامی کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 21ویں آئینی ترمیم اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2015ء کی منظوری کے وقت یہ دونوں جماعتیں غیر حاضر رہیں اور ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، یہ ہی وہ منافقت ہے جس کا مظاہرہ یہ دونوں جماعتیں ہمیشہ کرتی رہیں ہیں۔ فوجی جنرلوں کے جوتے صاف کرنے والے یہ مذہب فروش وہی کچھ کررہے ہیں اور کہہ رہے جو ان جماعتوں کے بانیوں نے کیا اور کہا۔سابق آمر ایوب خان کو 1964ء کے الیکشن کے وقت جس آئینی پابندی کو ترمیم کے ذریعے ختم کرنا تھا اُس میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے جن دو ووٹوں کی ضرورت تھی ان میں ایک ووٹ مولانامفتی محمود کا بھی تھا جو انہوں نے ایوب خان کو دیا۔ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو کو مارنا تھا جمعیت علماء ا سلام اور جماعت اسلامی نے بھٹو کو مروانے میں آمر ضیاءالحق کا پورا پورا ساتھ دیا، جنرل پرویز مشرف کو اپنی حکمرانی کو جائز بنانا تھا، مذہب فروش حاضر، 28دسمبر 2003ء کومرحوم قاضی حسین احمد،مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا، آئینی ترمیم کے ذریعہ آرٹیکل270اے اے لایا گیا اورجنرل مشرف کی اکتوبر 1999ء کی ایمرجنسی کو قانونی حیثیت دے دی گئی، مشرف نے ملائوں کی حمایت سے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی حاصل کرلیا۔ ملائوں کو کیا فرق پڑتا ہے بلکہ ترقی ہوگئی کیونکہ متحدہ مجلس عمل ترقی کرکے ”ملا ملٹری الائنس“ بن گی تھی۔
Siraj ul Haq
جماعت اسلامی کے نئے امیر کا مریڈ سراج الحق نے اپنی منافقت کا اظہار یہ کہکر کیا کہ ہم دہشتگردی کےمخالف ہیں اور مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے،مفلسی،بے روزگاری،جہالت اورطبقاتی نظام تعلیم کے خلاف جہاد کرنا چاہتے ہیں، دہشتگردکا کوئی مذہب اور نظریہ نہیں ہوتا، دہشتگردی کوئی بھی کرے وہ دہشتگرد ہے، قومی اتفاق رائے کیلئے آئینی ترمیم کے بل سے مذہب کا نام نکالنے کی تجویز دی تھی مگر حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ اب یہ تو کامریڈ سراج الحق کو پتہ ہوگا کہ مذہب فروشوں اور دہشتگردوں کے حامیوں کا بھی نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی نظریہ اور یہ بات کھلی کتاب کی طرح سے ہے کہ جماعت اسلامی جو نہ صرف دہشتگردوں کی کھلی حامی ہے بلکہ خود جماعت اسلامی کے لوگ دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ کامریڈ سراج الحق کی بات کو مان لینا چاہیے کیونکہ جماعت اسلامی ایک دہشتگرد جماعت ہے اسلیے نہ ہی اسکا کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی نظریہ۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ترمیم کی منظوری کے حوالے سے حکومتی طرزِعمل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی مذہبی یا غیرمذہبی نہیں ہوتی،شکر ہے گناہ سے بچ گئے، جمہوری حکومت میں فوجی عدالتیں اور آئین میں ترمیم کے موقع پرمذہبی جماعتوں کے تحفظات اور خدشات کو نظرانداز کر دینا درحقیقت ملک کو سیکولر نظام کی جانب لے جانے کی طرف پہلا قدم ہے لیکن یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور اسلام کے نام پر ہی قائم رہے گا۔ مولانا فضل الرحمان بلکل صیح فرماتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور اسلام کے نام پر ہی قائم رہے گا لیکن مولانا یہ ملک آپکے والد صاحب کے گناہوں کا نتیجہ نہیں ہے کیونکہ جسطرح آج آپ فرمارہے ہیں کہ اس 21ویں آئینی ترمیم کے گناہ سے بچ گئے ٹھیک اسطرح ہی آپکے والدمفتی محمود نے کہا تھا کہ ’’خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامِل نہیں تھے‘‘۔ اِس کے باوجود مولانا مُفتی محمود ’’گُناہ کی پیداوار‘‘ پاکستان کی سیاست میں لَت پَت رہے۔ مولانا اپنے والد سے چار ہاتھ آگے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو مولانا اقتدار میں ہوتے ہیں۔
تمام سیاسی قیادت کو اس وقت متفق ہونا ہوگا، سانحہ پشاور کے بعد بھی اتفاق رائے پیدا نہ ہوا تو دہشتگردوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور30 جنوری بروز جمعہ شکار پور کے علاقے لکھی در میں امام بارگاہ میں دھماکے کرکے جمعے کی نمازکےلئے آئے بچوں سمیت 50 افراد کوشہیداور 50 افرادکو زخمی کردیا۔ کراچی میں کوئی نقصان تو نہیں ہوا لیکن ایک اسکول کے باہر اسکول شروع ہونے سے قبل دھماکہ کرکے والدین کو خوف زدہ کیا گیا ۔ سانحہ پشاور کے بعدعوام دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کسی کو رکاوٹ بنتا نہیں دیکھنا چاہتے، آئینی ترمیم کے بل میں کسی بھی مذہب یا فرقہ کا نام نہیں لکھا گیا، آئینی ترمیم کیلئے انہی سیاسی جماعتوں نے ووٹ نہیں دیا جو دہشتگردوں کی حامی ہیں ۔ فوجی عدالتوں کیلئے آئینی ترمیم ایک تکلیف دہ عمل ہے لیکن پاکستان کی بقا کیلئے یہ عمل ہونا ضروری ہے۔ پاکستان اس وقت بہت خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے، آئینی ترمیمی بل میں کسی مذہب یا مسلک کا نام نہیں آیا، جمعیت علماء ا سلام اور جماعت اسلامی نے آئینی ترمیم کیلئے ووٹ نہ ڈال کر واضح کردیا ہے کہ کون لوگ پاکستان حامی ہیں اور کون پاکستان مخالف ہیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت کو دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ اُنکے حامیوں سے بھی نبٹنا ہوگا، ورنہ نہ ہی آپریشن ضرب عضب کامیاب ہوگا، نہ ہی قومی ایکشن پلان اور نہ ہی فوجی عدالتوں کا قیام۔