قاہرہ (جیوڈیسک) مصری صدر محمد مرسی نے ملک میں جاری سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے فوج کی جانب سے دی گئی اڑتالیس گھنٹے کی مہلت کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اس سے صرف ابہام پیدا ہوگا۔ صدر کا اصرار ہے کہ وہ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے اپنا لائحہِ عمل جاری رکھیں گے۔
اس سے پہلے مصری فوج نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین عوام کے مطالبات ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ تاہم مصری فوج نے بعد میں اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد فوج بغاوت نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں پر موجودہ کشیدگی ختم کرنے کے لیے زور دینا ہے۔
دوسری جانب ریاستی خبر رساں ادارے مینا نے منگل کی صبح بتایا کہ وزیرِ خارجہ محمد کامل امر مستعفی ہو گئے ہیں۔ منظور ہونے کی صورت میں وہ چھٹے وزیر ہوں گے جنہوں نے ملک میں جاری احتجاج کے پیشِ نظر اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ گذشتہ چند روز میں قاہرہ اور دوسرے شہروں میں لاکھوں مظاہرین نے صدر مرسی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
حزب اختلاف کی تحریک تمرود یعنی باغی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اگر صدر مرسی اقتدار سے الگ نہیں ہوئے اور انتخابات منعقد نہ ہونے دیے تو ان کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ صدر مرسی کے مخالفین کا دعوی ہے کہ فوری انتخابات کے مطالبے کی ایک پٹیشن پر دو کروڑ بیس لاکھ افراد نے دستخط کیے ہیں۔ مظاہروں کے شروع ہونے کے ایک روز بعد قاہرہ میں صدر مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کے مرکزی دفاتر پر حملہ کیا گیا۔
اخوان المسلمین کے دفتر کے باہر ہونے والے تصادم میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اخوان المسلمین صدر مرسی کی جماعت ہے۔ فوج نے اڑتالیس گھنٹے کی مہلت کی وضاحت کرتے ہوئے فوجی ترجمان کے فیس بک کے صفحے پر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ بیان کا مقصد سیاسی جماعتوں پر زور دینا تھا کہ کشیدگی کو ختم کرنے اور لوگوں کے مطالبات پورا کرنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے قائم کرے۔
بیان کے مطابق عسکری قیادت فوجی بغاوت کو پالیسی کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج 1977 ، 1986 اور 2011 میں مصر کی گلیوں میں رہی لیکن فوجی بغاوت نہیں کی۔ بیان میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ فوج ہمیشہ لوگوں کی حمایت کرتی رہی۔