تحریر : عبدالوارث ساجد اس کہانی کا آغاز سات اکتوبر سے ہوتا ہے جب انگریزی اخبار ڈان کے رپورٹر سرل المیڈا نے کو وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے حوالے سے خبر دی۔ اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا تاہم حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دے دیا۔ 10 اکتوبر کو وزیر اعظم نے خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے لئے انکی نشاندہی کی جائے۔ وزیراعظم ہائوس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر کے ہمراہ نواز شریف سے ملاقات کی۔ بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکا اس بات پر مکمل متفق تھے کہ یہ خبر قومی سلامتی کے امور کے بارے میں رپورٹنگ کے مسلمہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ 10 اکتوبر کو ہی سرل المیڈا نے ٹوئٹر پر پیغام میں بتایا کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔
13 اکتوبر کو وزیر داخلہ نے کہا کہ المیڈا کی خبر سے دشمن ملک کے بیانیے کی تشہیر ہوئی لہذا اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ 14 اکتوبر کو حکومت نے المیڈا کے بیرون ملک جانے پر پابندی واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ 30اکتوبر کو وزیر اطلاعات پرویز رشید کو قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت رکوانے کے سلسلے میں کردار ادا نہ کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ سات نومبر کوحکومت نے جسٹس ریٹائرڈعامر رضا خان کی سربراہی میں سات رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ 25اپریل2017 کو وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کو وزیر اعظم کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد عوام کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ 29اپریل کو وزیر اعظم نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دیدی۔
وزیر اعظم کے مشیر خارجہ امور طارق فاطمی کو مستعفی کر دیا گیا اور ساتھ ہی رائو تحسین احمد کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس تمام عرصے کے دوران اگر حالات واقعات پر گہرائی سے نظر ڈالیں تو لمبے عرصے کی طوالت اور پاک آرمی کے اصرار کے باوجود حکومت کی طرف سے انکوائری میں تاخیر کچھ اچھا پیغام نہ تھا۔ اس سارے عرصے میں حیلے بہانے اور ٹال مٹول سے وقت کے پہیے کو گھمایا گیا۔ ہر حکومتی فرد نے یہی تاثر دیا کہ گویا اتنی بڑی بات ہی نہیں ہے یہ الگ بات ہے اس طویل عرصے میں اپوزیشن جماعتوں سمیت پاکستانی عوام تشویش میں مبتلارہی اور ابھی تک ہے۔
شدید اصرار اور عوامی پریشر کے بعد حکومت نے کچھ کیا بھی تو غلط انداز سے اور ادھورا کر کے بھی یہی تاثر دیا گیا کہ اب معاملہ ختم سمجھے بلکہ ایک وزیر موصوف نے تو برملا کہہ دیا کہ ایک ہفتے بعد یہ سب کچھ بھول جائے گا۔ بہرحال جو کچھ بھی ہوا وہ اچھا نہ تھا یہی وجہ تھی کہ اسے آئی ایس پی آر نے مسترد کردیا ہے۔آئی ایس پی آر نے استرداد کی وجوہ رپورٹ کا نامکمل اور انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہ ہونا بتایا ۔ فوج کی جانب سے حکومت کی انکوائری رپورٹ مسترد قرار پانے سے سول ملٹری تعلقات کا معاملہ ایک بارپھر نمایاں ہوتا نظر آیا جو فوج نہیں بلکہ حکومت کی ناکامی ہے اور حکومتی ارکان کی یہ کوشش ہے کہ پاک آرمی پر جو الزام بھارت لگاتا ہے وہی ہمارا خیال ہے اور وقت گذرنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنا حساس معاملہ ہو اور سات ماہ گزر جائیں۔
رپورٹ میں پاکستانی فوج کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا گیا وہ کم و پیش وہی تھے جو بھارت کی طرف سے الزامات کی صورت میں تھونپے جاتے ہیں۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان، وزیر دفاع اور وزیر اطلاعات، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت صرف چند اہم افراد نے شرکت کی۔ یہ سب ذمہ دار شخصیات تھیں۔ ان میں سے ہر ایک نے ملک سے وفاداری اور اس کی سلامتی کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہوتا ہے لیکن اجلاس کی اندرونی باتوں کو بعض جھوٹ ملا کر جب شائع کیا گیا تو قومی سطح پر اس کا رد عمل بہت شدید آیا۔ پاک فوج کو خطے میں امن دشمن قوتوں کی سر پرست کے طور پر دکھانا ایک جرم ہے۔ حکومت اس معاملے پر تب تک کچھ کرنے پر آمادہ نہ ہوئی جب تک اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خود وزیر اعظم سے تحقیقات کا نہ کہا۔ اہل پاکستان کے لئے یہ امر باعث تعجب تھا کہ جس معاملے کی انکوائری کا فیصلہ دو دن میں کیاجاسکتا تھا وہ پہلے جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ تک روکا گیا اور ان کے بعد مختلف قانونی اور ضابطہ جاتی موشگافیوں کے ذریعے تاخیر کا شکار بنایا جاتا رہا۔ حکومت یہ تاثر دیتی رہی ہے کہ سول ملٹری تعلقات کے ضمن میں اس کی حیثیت بالاتر ہے۔ وزیر اعظم کے قریبی رفیق سینیٹر مشاہد اللہ خان کے بیانات ہوں یا رکن قومی اسمبلی رانا محمد افضل کے خیالات، وزیر اعظم کے فرقاء نے کئی بار فوج یا فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایسے خیالات کا اظہار خواجہ آصف بھی کرتے رہے ہیں۔ جب حکومت کے انتہائی اہم افراد مسلسل کسی ادارے کی کردار کشی کریں تو یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ ایسا سربراہ حکومت کی مرضی سے ہو رہا ہے۔
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے چند روز قبل اپنی معمول کی پریس بریفنگ کے دوران یہ مژدہ بھی سنایا کہ ڈان لیکس انکوائری رپورٹ ایک ہفتے میں آجائے گی۔ یہ رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کئی گئی تو اسی روز اس کے بعض حصے میڈیا کی خبر بن گئے۔ جناب طارق فاطمی اور رائو تحسین کو سبکدوش کئے جانے کی اطلاعات کو بعد ازاں حکومت نے غلط یا سیاق وسباق سے الگ قرار دیا۔ وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری یہ مراسلہ رپورٹ نہیں بلکہ رپورٹ کے مندرجات پروزیر اعظم کے احکامات ہیں۔ مگر حضور اس کی ضرورت ہی کیا تھی جب وزیراعظم کو پیش کی گئی رپورٹ ساری منظر عام پر پیش آتی تھی تو اس کے چند الفاظ کو پیش کر کے بکروں کی قربانی کیوں دی گئی اور کس کو بچانے کے لیے یہ کھیل کھیلا گیا۔ وزیر داخلہ نے انکوائری رپورٹ اپنی وزارت سے جاری کرنے کا بتا یا ہے۔ مگر حضور مکمل رپورٹ کیوں نہ پیش کی گئی۔
ڈان لیکس کے معاملے پر حکومت کا طرز عمل بلا شبہ پاکستان کے شہریوں کی توقعات کے مطابق نہیں۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑرہاہے۔ بچہ بچہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ اس لڑائی کی حیثیت ہماری بقایا بطور قوم نا بودی ہوسکتی ہے۔ اس جنگ میں پاک فوج دشمن کو گرفتار کر رہی ہے، ہلاک کر رہی ہے اور اس کے مزموم عزائم کو ناکام بنا رہی ہے۔ سویلین حکومت اور سماجی شعبہ فوج کا پشت بان نہ ہو تو جنگ کے نتائج دشمن کے حق میں ہونے کے امکان پیدا ہو جاتے ہیںَ تاریخ کے اس اہم موڑ پر اس قابل تحسین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ادارے کو متنازع بناے کی کوشش نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ حکومت محض سیاسی مصلحت کی بناپر ڈان لیکس کی نا مکمل اور ادھوری رپورٹ پیش کر کے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی۔