عسکری سامان چین کو فروخت کرنے کی کوشش پر امریکی خاتون کو سزا

Drone

Drone

امریکہ (جیوڈیسک) امریکہ کی طرف سے چین کو فوجی سازوسامان فروخت کرنے پر 1990ء سے پابندی عائد ہے اور حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی بھی دفاعی سامان چین کو فروخت نہیں کیا جا سکتا ہے۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی ایک امریکی خاتون کو چین کو لڑاکا جہازوں کے انجن اور ڈرون طیارہ فروخت کی سازش میں ملوث ہونے کے جرم میں چار سال سے زائد قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ 45 سالہ وینکسیا سین ڈیاگو میں واقع ٹیکنالوجی کے پرزے فروخت کرنے والی ایک کمپنی کی نائب صدر بھی ہے۔ انھوں نے چینی حکومت کے لیے کام کرنے والے ایک سرکاری ایجنٹ کی نمائندگی کی تھی۔ وہ وینسی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔

فلوریڈا کی ایک عدالت نے انھیں گزشتہ ہفتے چین کو یہ سامان فراہم کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے جرم میں پچاس مہینے کی قید کی سزا سنائی۔

بتایا گیا ہے کہ جب وینکسیا کو پانچ کروڑ ڈالر کی مالیت کا فوجی ساز و سامان چین کو فروخت کرنے کی کوشش کی بنا پر گرفتار کیا گیا تو وہ اس معاملے میں ملوث ہونے کے خطرات سے پہلے سے آگاہ تھی۔

ایک وفاقی عدالت کی دستاویزات کے مطابق اپنے آپ کو ایک ڈیلر کے طور پر پیش کرنے والے ایک خفیہ ایجنٹ کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی خاتون نے تسلیم کیا کہ وہ جانتی تھیں کہ جیٹ انجن اور ڈرون طیارے کو امریکہ سے باہر اسمگل کرنا ایک غیر قانونی اقدام ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود انھوں نے جعلی ڈیلر اور چینی “ٹیکنالوجی کے جاسوس” زن شینگ ذہانگ کے ساتھ بات چیت جاری رکھی جو فوجی ساز و سامان اور ٹیکنیکل ڈیٹا (چین) درآمد کرنے کے لیے چینی حکومت کے ایک سرکاری ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔

اگر یہ سمجھوتا طے پا جاتا تو وینکسیا کو کمیشن کی مد میں 10 لاکھ ڈالر مل جاتے تاہم ایک سال تک جاری رہنے والی بات چیت بغیر کسی پیش رفت کے 2013ء میں ختم ہو گئی۔

امریکہ کی طرف سے چین کو فوجی ساز و سامان فروخت کرنے پر 1990ء سے پابندی عائد ہے۔ حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی بھی دفاعی سامان چین کو فروخت نہیں کیا جا سکتا ہے اور وینکسیا کے پاس ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا لائسنس بھی نہیں تھا۔

مان کو ستمبر 2015ء میں گرفتار کیا گیا اور انہوں نے خود پر عائد الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جن میں فوجی سامان کو برآمد کرنے یا برآمد کرنے میں معاونت کی سازش اور دفاعی سامان کے بغیر لائسنس کے ایجنٹ کے طور پر کام کا فرد جرم عائد کی گیا تھا۔ ایک جیوری نے جون میں انھیں مجرم قرار دیا تھا۔

وینکسیا چین میں پیدا ہوئی تھی اور انھوں نے 2006ء میں امریکہ کی شہریت حاصل کی تھی۔

وینکسیا کے وکیل الیگزینڈر اسٹراسمین نے اتوار کو فون پر ایک انٹرویو میں اس بات پر اصرار کیا کہ ان کی موکلہ کا طرز عمل کسی طور بھی اس پر عائد الزامات کی بنیاد نہیں بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ”ان کا طرز عمل قطعی طور پر کسی سازش کا غماز نہیں ہے”۔ اسٹراسمین نے مزید کہا کہ سازش سے متعلق وفاقی قانون کے تحت اسے نہیں پکڑا جانا چاہیئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وینکسیا چین میں اپنے ایک جاننے والے سے رابطے سے قبل فوجی سازوسامان کے بارے میں کوئی واقفیت نہیں رکھتی تھی اور اُن کے رابطہ کار نے ان سے امریکہ میں اس سازوسامان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کہا تھا۔ وہ سیان ڈیاگو نامی ایک کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھیں جسے مالی دباؤ کا سامنا تھا۔

اسٹراسمین نے کہا کہ اس کے بعد وینکسیا نے اسلحہ کے ایک مبینہ ڈیلر اور ذہانگ کے درمیان رابطہ کروا دیا تھا اور اس کے بعد اس کا کردار بظاہر ختم ہو گیا تھا۔

ذہانگ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ میں موجود نہیں ہے اسے ان الزامات سے متعلق نا ہی حراست میں لیا گیا تھا۔

واشنگٹن میں چین کے سفارت خانے سے اس مقدمے کے بارے میں ردعمل جانے کے لیے بھیجی گئی ای میل کا اتوار تک جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

رواں سال مئی میں امریکہ محکہ دفاع کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بیجنگ غیر ملکی فوجی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سائبر اور انسانی جاسوسی کو استعمال کر رہا ہے۔