فوجی انخلا کے درمیان جو بائیڈن اور اشرف غنی کی ملاقات

Ashraf Ghani and Joe Biden

Ashraf Ghani and Joe Biden

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان کی حمایت جاری رکھے گا تاہم اب افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہو گا۔ افغان صدر اشرف غنی نے فوجی انخلا کے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

ایک ایسے وقت میں، جب افغانستان سے امریکی اور دیگر بیرونی افواج کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے ، امریکی صدر جو بائیڈن نے 25 جون جمعے کے روز وائٹ ہاؤس میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ اس میٹنگ میں افغان قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبد اللہ بھی موجود تھے۔

صحافیوں سے بات چيت کے دوران صدر جو بائیڈن نے افغانستان کے لیے امریکی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ فوجی انخلا کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان شراکت داری برقرار رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بے حس تشدد کو رکنا چاہیے اور اب، ”افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے کیا آخر وہ کیا چاہتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہمارے فوجی البتہ نکل رہے ہیں تاہم افغانستان کی حمایت ختم نہیں کریں گے۔‘‘

افغان صدر اشرف غنی نے اس موقع پر فوجی انخلا کے تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ طالبان کے ہاتھوں میں، جو اضلاع چلے گئے تھے، ان میں سے چھ پر افغان فورسز نے اپنا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”آپ دیکھیں گے کہ عزم، اتحاد اور شراکت داری کے ساتھ ہم تمام مشکلات کو دور کر لیں گے۔‘‘

جمعے کے روز ہی افغان صدر نے امریکی وزیر دفاع لوائیڈ آسٹن اور کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی سے بھی ملاقات کی۔ اس سے قبل جمعرات کو انہوں نے سینیٹ میں ریپبلکن رہنما مچ میکونیل سے بھی ملاقات کی تھی جو فوجی انخلا کے خلاف ہیں۔

امریکا نے سن 2001 میں نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کر دیا تھا اور تب سے اب تک، یعنی دو عشروں سے، اس کی فوجیں افغانستان میں تعینات ہیں۔ بہت سے ناقدین متنبہ کرتے رہے ہیں کہ بیرونی افواج کے انخلا کے بعد طالبان پھر سے ملک پر قابض ہو جائیں گے۔

امریکی انتظامیہ کا خيال ہے کہ افغانستان میں جنگ اور آپریشن بہت طویل ہو چکا ہے اور اسی لیے اس نے رواں برس گیارہ ستمبر تک افغانستان میں باقی تقریباً ڈھائی ہزار کے قریب فوجیوں کے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کا ماننا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان مسائل سے جان چھڑا کر چین جیسی بڑی طاقت کے ‘سکیورٹی خطرات‘ پر توجہ دی جائے۔

افغان جنگ میں امریکا کو بڑی جانی اور مالی قیمت بھی چکانی پڑی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک افغانستان میں اس کے دو ہزار 400 فوجی ہلاک ہوئے جبکہ بیس ہزار سے بھی زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔

دوسری جانب افغان شہریوں کو تو اس سے بھی کہیں زیادہ بڑی قیمت چکانا پڑی ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق اب تک تقریبا 66 ہزار افغان اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ جنگ کی وجہ سے لاکھوں افغان شہریوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔

امریکا نے انخلا کے باوجود پڑوسی ملکوں میں رہ کر افغانستان کی سکیورٹی کی صورت پر نظر رکھنے کے خیال کا اظہار کیا ہے اور وہیں سے دشمن عناصر کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی بھی بات کہی ہے۔ کابل میں امریکی سفارت کاروں اور دیگر اسٹاف کی حفاظت کے لیے بھی تقریباً ساڑھے چھ سو امریکی فوجی موجود رہیں گے۔

نیٹو کے رکن اور امریکا کے اتحادی ملک ترکی نے بھی انخلا کے بعد کابل میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالنے پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔