لاہور (جیوڈیسک) امن وامان چیلنج ہے :معین الدین، مذاکرات یا ایکشن، فیصلہ ہوگا:شہزاد چودھری خارجہ پالیسی بدلنا ہوگی۔
چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے کہا ہے کہ نئے جرنیلوں کے تقرر سے سول ملٹری تعلقات اور طالبان کے متعلق کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ یہ فوج کے ادارے کی سوچ ہے کہ وہ سویلین حکومت کے تابع رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل کیانی اچھی روایت ڈال کر گئے ہیں۔ یہ ادارے کا نیا رخ ہے اور نئی قیادت اس میں تبدیلی نہیں لائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فوج کے کمانڈر کی سوچ کا عکس پوری فوج میں ہوتا ہے۔ جنرل راحیل کو اہلیت کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔
موجودہ صورتحال ان کیلئے چیلنج ہے۔ فوج اور سول حکومت کو مل کر کام کرنا ہو گا۔سابق وزیر داخلہ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے بتایا کہ شخصیات کا فرق ضرور پڑتا ہے۔ سیاسی قیادت نے جن جرنیلوں کو چنا ہے۔ امید ہے وہ توقعات پر پورا اتریں گے۔
اگر حکومت طالبان سے مذاکرات چاہتی ہے تو فوج کا بھی پورا وزن اس طرف ہو گا۔ امن و امان کا قیام آرمی چیف کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا اور دوسرا چیلنج جمہوریت کو مستحکم کرنا ہوگا۔
ایئر وائس مارشل (ر) شہزاد چودھری نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات یا فوجی ایکشن، جنرل راحیل کو فیصلہ کرنا ہے۔ اب چیزیں واضح ہوکر سامنے آجائیں گی۔ وقت نے دو شریفوں کو اکٹھا کر دیا ہے، دو چار ماہ میں کسی نہ کسی حل پر پہنچنا پڑے گا۔
جنرل راشد نے جنرل کیانی کے ساتھ سی جی ایس کے طور پر کام کیا تھا ،انہیں آرمی چیف بنایا جاتا تو وہ جنرل کیانی کی چھاپ ہوتے۔
تجزیہ کار احمد رشید نے کہا کہ پاک فوج کی پالیسی میں کوئی اہم تبدیلی نہیں ہو گی۔ خطے میں تبدیلی آرہی ہے ۔نئے چیف کو صورتحال کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ سول ملٹری قیادت کو مل کر کام کرنا ہو گا اور خارجہ پالیسی کو نئی شکل دینا ہوگی ۔
جنرل راحیل شریف کا تقرر انتہائی اہم وقت پر ہوا ہے ۔خیال کیا جا رہا تھا کہ جنرل ہارون اور جنرل طارق سخت گیر اور جنرل راحیل اور جنرل راشد نرم گفتار جنرل ہیں اور یہ جنرل طالبان سے بات چیت کو ترجیح دیں گے ۔