تحریر: سلطان حسین گرمیوں کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی ملک بھر میں ایک بار پھر لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی بے تحاشا لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مظاہرے ہورہے ہیں لوڈ شیڈنگ ان علاقوں میں بھی ہورہی ہے جہاں سے وصولیاں ٹھیک جارہی ہیںکچھ عرصہ قبل توانائی بحران ہی کی وجہ سے دوچھٹیوں کا فیصلہ کیا گیااس وقت صوبہ خیبرپختونخواسمیت پورے ملک میں سرکاری سطح پر دوتعطیلات ہورہی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی توانائی کا بحران حل نہ ہوسکااور یہ اب تک جاری ہے اور مستقبل قریب میں بھی حل ہونے کی امید نہیں ہے حالانکہ اس فیصلے کے وقت دعوی یہ کیا جارہا تھا کہ اس سے توانائی کا بحران کافی حد تک حل ہوجائے گا لیکن اس کے باوجود لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور موسم کی تبدیلی کے باوجود لوگوں کی شکایات بدستور موجود ہیں پاکستان بنے 64برس ہوگئے لیکن ہم آج بھی میچور نہیں ہوئے اورتجربات میں مصروف ہیں ہمارے حکمرانوں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو سمجھ ہی نہیں آرہی ہے کہ وہ اپنے ہی پیدا کردہ مسائل پر کس طرح قابو پائیں؟ مسائل کے ان انبار کو کم کرنے کیلئے وہ نت نئے تجربے کرتے ہیں اور اسی خلفشار میں وہ پہلے سے کئے گئے ناکام تجربات کوبھی دہراتے ہیں جس سے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں
اپر کلاس سے تعلق رکھنے اور بڑی بڑی اے سی گاڑیوں اور عالی شان محلات میں رہنے والے حکمرانوں اور بیورو کرئٹس کو عوام کے مسائل کی ہلکی سی جھلک تب نظر آتی ہے جب سرکاری املاک کی توڑپھوڑ ہوتی ہے اور اس میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیںکچھ عرصہ قبل جب لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سرکاری دفاتر اور گاڑیوں کو آگ لگانے کے واقعات سامنے آئے تو جہاں ایک طرف بعض سیاسی پارٹیوں نے اسے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کیا تو وہاں دوسری طرف حکومت کو بھی قدرے احساس ہوا کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ سے عوام کو بھی کوئی تکلیف ہے ضرور’ اور اس تکلیف کو رفع کرنے کیلئے اعلیٰ دماغوں نے سوچ بچار شروع کر دیا وران ٹھنڈے دماغ والے لوگوں کو مسائل کا جو حل نظر آیا وہ دو چھٹیاں تھیں جس کی تجویز بڑوں تک پہنچا دی گئی اور ہمارے ملک کے بڑوں کواللہ عقل دے انہوںنے اس کے فوائد اور نقصانات پر سوچ بچار کیلئے دماغ خرچ کرنے کی بجائے ملک کے وسیع تر مفاد اور عوام کی بھلائی کی خاطر اس کی منظوری دید ی سرکاری اداروں میں دو دن چھٹیوں کا تجربہ پہلے بھی کیا گیاتھا جو ناکام ثابت ہوا سرکاری اہلکار کام کی بجائے ہفتے میں تین چھٹیاں کرنے لگے تھے ہفتے میں صرف تین دن کام ہوتا رہا ملازمین پیر کے دن آرام سے دفاتر پہنچتے جبکہ آفیسر کو تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ”صاحب کے پاس گئے ہیں” ان کی چھٹیوں کا بہترین بہانہ تھا جمعے کے دن لوگ نماز جمعہ کیلئے تیاری کرتے اس لیے بارہ بجے سے ہی دفاتر ویران اور سنسان نظر آنے لگتے تھے جمعہ کے بعد اکثر اہلکار اور خصوصاً دور دراز علاقوں سے آنے والے اہلکار اپنے گھروں کا رخ کرلیتے کیونکہ ہفتہ اور اتوار کو ان کی ویسے بھی چھٹی ہوتی تھی افسران یا اگر کوئی ضرورت مند غلطی سے پوچھ لیتا تو جواب ملتا نماز کیلئے گئے ہیں آجائیں گے
Load shedding
ان کے آنے کے انتظار میں سائل کی آنکھیں پتھرا جاتیں اس طرح ہفتے میں چھ دن کی بجائے ساڑھے تین کام ہوتا رہا جبکہ عام دنوں میں بھی ایک آدھ سرکاری اہلکار کو ”ڈیوٹی سونپنے” کے بعد اکثر ملازمین غائب ہوجاتے اور سائل یا ضرورت مند حکومت کی طرف سے دو دن کی چھٹیوں کے فوائد حاصل کرتے رہتے دوباہ بھی اسی آزمودہ فارمولے کوآزمایا گیا اور کام چورسرکاری اہلکاروں نے اس پر عمل شروع کررکھا ہے جہاں تک دور دراز علاقوں سے لوگوں کی آمد کا معاملہ ہے تو یقینا انہیں یہ آسانی توہے کہ دفاتر کھلے ملتے ہیں لیکن ان میں کام کرنے والے اہلکار انہیں وہاں نہیں ملتے جب دفاتر کھلے ہونگے تو بجلی بھی خرچ ہوتی رہے گی اور سرکاری وسائل بھی ضائع ہوتے رہیں گے اب آتے ہیں توانائی کی بچت کی طرف سے ایک دن کی ا ضافی چھٹی سے اگر ایک طرف 8گھنٹے تونائی کی بچت ہو رہی ہے تو وہاں دوسری طرف دفاتر کے اوقات میں 2گھنٹے اضافی وقت سے پانچ دنوں کے دس گھنٹے بنتے ہیں تو بچت کہاں ہوئی اس طرح توآٹھ گھنٹے توانائی کی بچت کی بجائے دو گھنٹے مزید اضافی توانائی خرچ ہورہی ہے اب معلوم نہیں کہ کس عقلمند نے توانائی کی بچت کا یہ فارمولا تیار کیا ہے کہ دو گھنٹے ڈیوٹی بڑھانے اور دو دن کی چھٹی سے توانائی کی بچت ہوگی ان کا یہ فارمولا کم از کم ہماری سمجھ میںتو نہیں آیا سردی میں اس کے باوجود کہ اے سی پنکے اور بعض دیگر شعبے بند ہوجاتے ہیں اور بجلی کا استعمال کم ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی واپڈاکے ذیلی ادارے لوڈشیڈنگ کرتے ہیں جبکہ گرمی میں صورت حال اتنی زیادہ خراب ہوتی ہے
لوگ عذاب میں مبتلا نظر آتے ہیں اسکے علاوہ تعطیلات سے تاجروں کا بھی سرکاری اداروں سے رابط دو دن منقطع رہنے لگا ہے جس سے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور تجارتی وصنعتی سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ہفتہ وار دو تعطیلات سے تاجروں اور حکومت کو 22ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے اس قوت سرکاری وغیر سرکاری تقریبات کے دوران جو توانائی خرچ ہورہی ہے حکومت اس کیطرف دھیان ہی نہیں دیتی حکومتی ایوانوں وزراء کے گھروں اور اراکین اسمبلی کے ہاسٹلوں میں بجلی جس طرح بے دریغ استعمال ہو رہی ہے اگر اس میں ہی کچھ کمی لائی جائے تو کافی بہتری پیداہو سکتی ہے ہمارے یہاں توانائی کے حوالے سے ایک باقاعدہ وزارت بن موجود ہے جسے سالانہ اربوں روپے کے فنڈ ملتے ہیں جو تنخواہوں اور غیر ترقیاتی مدوں میں استعمال ہو رہے ہیں اس وزارت پر عوام کے خون پسینے کی کمائی بے دریغ لٹائی جا رہی ہے جبکہ اس کی کارکردگی صفر ہے اس کے وزیر صاحب کا کام صرف مخالفین پر جگتیں کسنا رہ گیا ہے اس سے تو بہتر یہ ہے کہ یہ وزارت ہی ختم کر کے اس کے فنڈ توانائی کے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں کچھ تو فرق پڑے گا لیکن یہاں صرف اپنوں کو نوازنے کیلئے اربوں روپے لٹائے جا رہے ہیں جیسے دادا جی کا خزانہ ہو ہماری اسی فیاضی کا ذکر غیر ملکی جریدوں میں بسا اوقات ہوتا ہے
Pakistan
اور ابھی حال ہی میں ایک برطانوی جریدے اکانومسٹ نے بھی حکومت کی اس فیاضی کا ذکر کیا ہے برطانوی جریدہ لکھتا ہے کہ ایک طرف توانائی بحران نے پاکستان کو عدم استحکام کے خطرے سے دو چار کیا ہواہے تو دوسری طرف حکومت کی غیر واضح حکمت عملی اور نئے پاور پلانٹس میں دوستوں کو نوازنے میں اربوں ڈالر ضائع کئے گئے اس وجہ سے 2008ء کے بعد حکومت کو شدید مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا توانائی کی کمی سے پاکستان کی جی ڈی پی میں بھی چار فیصد کمی ہوئی ایک طرف ملک توانائی کے بحران میں مبتلا ہے تو دوسری طرف توانائی کے منصوبوں کے نام پر لوٹ مار بھی جاری ہے کرپشن کا یہ حال ہے کہ واپڈا جیسے ادارے میں سالانہ 90ارب روپے بڑوں نے ہڑپ کر لیے جس کا انکشاف آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے اتنی بڑی کرپشن کے باوجود حکومتوں کی بے حسی دیکھئے اس حوالے سے کوئی اقدام اٹھایاہی نہیں گیا اس کے باوجود ہر بارجب بھی حکومت کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو صرف عوام سے ہی قربانیوں کا تقاضا کیا جاتا ہے اور عوام کی ان قربانیوں کا فائدہ بڑے لوگ اٹھا لیتے ہیں کسی بھی ملک میں عوامی مسائل سے نمٹنے کیلئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم کی منصوبہ بندیاں کی جاتی ہیں جو ہمارے ملک میں نظر نہیں آتیں توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے پاکستان میں گذشتہ چالیس سال کے دوران کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور ایڈھاک ازم کے ذریعے کام چلایا جا تا رہا جس کی وجہ سے اب توانائی کا بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے
فوجی ادوار ہوں یا سیاسی اب تک کسی بڑے ڈیم پر کام شروع نہیں کیا جا سکا حالانکہ اس کے برعکس بھارت میں اس حوالے سے تیزی سے منصوبہ بندی کی جا ری ہے اور اس وقت بھی ان کے چالیس سے زائد ڈیموں کا منصوبہ پائپ لائن میں ہے جس میں کئی ڈیموں کی تعمیر ہو چکی ہے اور کئی پر کام جاری ہے جس میں دو ڈیموں پر پاکستان کا ان سے تنازعہ بھی چل رہا ہے پاکستان کے برعکس بھارت میں اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے وہاں یہ ایک مسلسل عمل ہے جو کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں توانائی کابحران اتنا نہیں ہے جتنا پاکستان میں ہے حالانکہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے لیکن توانائی کے اس شدیدترین بحران کے جھنجٹ سے بھارت آزاد ہے جبکہ ہمارے لیے یہ مسئلہ دیو ہیکل شکل اختیار کر چکا ہے جس سے نمٹنے کیلئے اب بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے صرف ذاتی مفادات اور کمیشن کی خاطرچھوٹے چھوٹے اقدامات کر کے اس سے جان چھڑائی جا رہی ہے جب تک اس بحران سے نمٹنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں ہوگا یہ بحران ختم نہیں ہوگا بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید ہوگااور اب تو اس بحران کے 2020 ء تک جاری رہنے کی نوید بھی سنا دی گئی ہے اس وقت ہم اپنی قومی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بے جا عیاشیوں کو چھوڑ کر کفایت شعاری اختیار کریں عوام کو ریلیف دیں اور ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں جس کیلئے شارٹ ٹرم کے ساتھ طویل المیعاد پالیسیوں کی بھی ضرورت ہے اور صرف منصوبوں ہی کی ضرورت نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ورنہ پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور وقت بڑا بے رحم ہے یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔