امریکا کے معروف اخبار نیویارک ٹائمزنے پاکستان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کی منسوخی کا فیصلہ بھارت کی جانب سے غیر ضروری ردعمل تھا، خاص طورپر اس وقت جب کہ شکایات پر تبادلہ خیال اوراس کے حل کے لئے دباؤ ڈالنے کا ایک موقع حاصل ہوسکتا تھا۔ بھارت نے نئی دلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کی حریت پسند کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کو بہانا بنا کر اسلام آباد میں 25 اگست کو ہونے والے سیکرٹری خارجہ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات کو بہتر بنانے کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہے لیکن اس سلسلے میں یکطرفہ طور پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ برصغیر میں اگر امن کے بارے میں سوچنا ہے تو اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کو ایڈریس کریں اور اس کے لئے دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کو آپس میں بات کرنی ہوگی۔ کشمیر میں ٹھوس اور نتیجہ خیز مذاکرات کا چین حامی ہے اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کومدد دینے کے لئے تیار ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ حالات کو ڈگر پر رکھنے کے لئے دونوں ممالک کو فوری طور پر مسئلہ کشمیر پر بڑی پیش رفت کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ چین کا کشمیر پر موقف اٹل ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی آئے گی تاہم انہوں نے پاکستان کے ساتھ دوستی کو پائیدار بنیادوں پر برقرار رکھنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا روایتی دوست ملک ہے اور کسی بھی برے وقت میں چین پاکستان کا ساتھ دیگا۔ امریکہ سمیت کئی ممالک کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ تمام تر آپسی مسائل پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے اقدامات کریں۔ بانکی مون کا یہ بیان حال ہی میں دونوں ملکوں کے مابین خارجہ سیکریٹری مذاکرات کی منسوخی کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔
نئی دہلی کی طرف سے اسلام آباد میں 25 اگست کو مقرر کی گئی ہند و پاک خارجہ سیکریٹری سطح کی بات چیت منسوخ کرنے پر امریکہ سمیت کئی ممالک کے بعد اقوام متحدہ نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کے ترجمان کی طرف سے باضابطہ طور ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق ”سیکریٹری جنرل دونوں ملکوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ آپسی معاملات افہام و تفہیم اور پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کریں”۔ گزشتہ ہفتے مذاکرات کی معطلی کے بعد امریکی وزارت خارجہ کی خاتون نائب ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ”یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سیکریٹری خارجہ بات چیت منسوخ کردی گئی ہے۔
Syed Ali Geelani
ترجمان کا کہنا تھا ”ہم دونوں ملکوں کی طرف سے آپسی تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے میں اٹھائے جارہے اقدامات کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ ایک ایسا موقف ہے جو دونوں ملکوں پر وقتاً فوقتاً واضح کیا جاتا ہے”۔ ترجمان نے یہ بات زور دیکر کہی کہ جو کچھ بھی ہوا، اس سے قطع نظر نئی دہلی اور اسلام آباد کو باہمی رشتوں کی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئے۔ حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کہا کہ کشمیر کاز کے حمایتی پاکستان کے کسی حکمران کی اْس ڈکٹیشن کو بھی قبول نہیں کرئے گی جو کشمیریوں کی امنگوں اور قربانیوں کے منافی ہو اور جس کا مقصد آزادی سے کم کسی سمجھوتے پر کشمیریوں کو راضی کرانا ہو۔
ایک ایسے وقت میں جب تنازعہ کشمیر کے حوالے سے مختلف فارمولے، روڈ میپ اور مختلف آوٹ آف بکس حل سامنے آنے لگے تھے اور پاکستان کے روائتی موقف سے ہٹ کر اس کو وہاں سے بھی حمایت ملنا شروع ہوگئی تھی، ایک ایسی منفرد آواز کا وجود میں لایا جانا ناگزیر بن گیا تھا جس میں کوئی ابہام اور شک نہ پایا جاتا ہو اور جو آزادی سے کم کسی بھی حل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ تحریک حریت نہ صرف بھارتی جبر و ظلم کے آگے اپنے واضح اسٹینڈ پر قائم ہے بلکہ اس نے تاریخ رقم کی ہے۔
دو طرفہ مذاکرات اور معاہدوں کو لاحاصل مشق قرار دیتے ہوئے حریت کانفرنس (م) کے چیئرمین میرواعظ عمرفاروق نے کہا کہ جموں و کشمیر، ہند و پاک کے درمیان کوئی سرحدی یا علاقائی تنازعہ نہیں، میرواعظ عمر نے نریندر مودی کو اٹل بہاری واجپائی کی پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی تبدیلی، انتخابات، مراعات یا بزور طاقت مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جاسکتا، جموں کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیاں کوئی سرحدی یا علاقائی تنازعہ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کے تعین کا مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری نے اس کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا ہے
انہوں نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی معطلی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ امید کی جارہی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے ضمن میں بھارت کی نئی قیادت اپنے پیشرو اٹل بہاری واجپائی کی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے اس مسئلہ کو آئین کی حد بندیوں سے نکل کر انسانیت کے دائرے میں حل کرنے کی کوشش کرے گی لیکن اس کے بجائے جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں اور کشمیری عوام کو طاقت کے بل پر پشت بہ دیوار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس نے اس پورے خطے کو ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
مسئلہ کشمیر حکومت کی تبدیلی، نام نہاد انتخابات کے انعقاد یا طاقت کی زبان استعمال کرنے سے حل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ 1947ء سے آج تک یہ عمل یہاں بار بار دہرایا جاتا رہا ہے اس مسئلہ کو لے کر دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں تاشقند اور شملہ سمجھوتے بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود مسئلہ کشمیر اپنی جگہ قائم ہے کیونکہ اس عمل میں کشمیر عوام شامل نہیں تھے، کشمیریوں کی تحریک آزادی کو اس کے تاریخی پس منظر سے الگ نہیں کیا جاسکتا کشمیری عوام پورے شعور کے ساتھ اس تحریک سے جڑے ہیں اور گزشتہ کئی دہائیوں سے اس قوم نے بھارت کی جانب سے ناقابل یقین جبر و استبداد کا سامنا کیا ہے۔
امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسرحافظ محمد سعید کہتے ہیںکہ نواز شریف بھارت سے مذاکرات ضرور کریں، تجارت اور معاہدے بعد میں، پہلے مسئلہ کشمیر ہونا چاہئے، اگر نریندر مودی اور بی جے پی انکار کریں اور رویئے تبدیل نہ کریں تو پھر تحریک آزادی کشمیر کی ہر طرح کی مددکی جائے،ہم کشمیر کی تقسیم کے قائل نہیں، کشمیریوں کو اپنا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ نریندر مودی سن لے اب پروپیگنڈوں کا دور گزر چکا، یہ مسلمانوں کی آزادی کی صدی ہے، کشمیر جلد آزاد ہو گا۔کشمیریوں نے لازوال قربانیاں اور سختیاں جھیل کر طویل عرصے سے تحریک آزادی کشمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
بھارتی فوج جتنا وقت کشمیر میں بڑھائے گی غزوہ ہند کی جڑیں ہندوستان میں مزید گہری سے گہری ہوتی جائیں گی۔ امریکہ افغانستان میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد جاتے جاتے اپنی جگہ بھارتی فوج کو پوزیشن دینے کی شرارت کر رہا ہے۔ امریکہ بھارتی فوج کو پاکستان کے خلاف مغرب اور مشرق میں کھڑا کر کے افغانستان کی شکست کا انتقام لینا چاہتا ہے۔ بھارت سے دوستی اور مذاکرات میں کشمیر کو نظر انداز نہ کیا جائے۔