گزشتہ کئی سالوں سے ہم ایک ہی گوالے سے دودھ لیتے آ رہے ہیں۔ ہم اپنی بھرپور کوششوں اور کاوشوں کے باوجود تا حال یہ عقدہ وا نہیں کر سکے کہ گوالا دودھ میں پانی ملاتا ہے یا پانی میں دودھ۔ ہم گلے شکوے کرتے رہتے ہیں لیکن مجال ہے جوکبھی گوالے کے ماتھے پر شکن آئی ہو یا عرقِ ندامت سے پیشانی تَر۔ ہم نے جب بھی اُسے لیکچر پلایا اُس نے ایک ہی جواب دیا ”بی بی لعنت ہے ملاوٹ کرنے والے پر، ہم تو حلال کی روکھی سوکھی کھانے والے ہیں۔
چیخنا چلانا اور احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق ہے جسے ہم بطریقِ احسن نبھاتے رہتے ہیں لیکن مسکرا کے ٹال دینا گوالے کی سرشت۔ ایک آدھ بار ہم نے گوالا بدلا بھی لیکن دودھ میں ڈُبکیاں لگانے کے باوجود بھینس کا اتا پتا نہ ملا۔ تھک ہار کر اُسی گوالے سے رجوع کرنا پڑا اور اب تو ہم نے گوالا نہ بدلنے کی قسم اٹھا رکھی ہے کیونکہ ”رجوعِ مکرر” پر گوالے کے ہونٹوں پر آئی ہوئی طنزیہ مسکراہٹ ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ ایک بار کسی نے تحفتاََ ہمیں گاؤں سے خالص دودھ بھیجا جسے پی کر ہم سبھی بیمار پڑ گئے، اِس لیے گوالے کا ”خالص ہائی جینک” دودھ اور ہم لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ ڈبے کے دودھ سے ہمیں اکبر الہ آبادی نے بہت پہلے ڈرا دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں
طفل سے بُو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی دودھ تو ڈبے کا ہے ، تعلیم ہے سرکار کی
ایک بار ہم گوالے سے پوچھ بیٹھے کہ اُس نے کبھی تسلیم نہ کرنے کا گُر کہاں سے سیکھا ہے؟۔ گوالا جھٹ سے بولا ”ابّا بہشتی” سے۔ پھر باتونی گوالے نے ابّا بہشتی کے کارنامے گنوانے شروع کر دیئے۔ اُس نے بتلایا کہ ابّا بہشتی بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔ پورے علاقے میں اُس کی دھوم تھی لوگ اُس سے ملنے کے لیے ترستے رہتے تھے لیکن وہ کسی سے نہیں ملتا تھا کیونکہ اُس کا زیادہ وقت تھانے کچہری میں گزرتا تھا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کہ کیا وہ اتنا بڑا ”عوامی خدمتگار”تھا؟۔ گوالا کہنے لگا ”چھڈو جی! اگر اُس کی خدمتوںکا پوچھنا ہے تو علاقے کے لوگوں سے پوچھو ۔علاقے کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں وہ نہ پہنچا ہو۔ ابّا بہشتی کا ہاتھ اتنا صاف تھا کہ وہ بڑے بڑے چوہدریوں کی گائیں ، بھینسیں بھی ایسے نکال لے جاتا جیسے مکھن میں سے بال۔ سبھی جان جاتے کہ یہ صاف ستھرا کارنامہ ابّا بہشتی ہی کا ہے لیکن مجال ہے جو ”پُلس”اُس سے کچھ اُگلوا سکی ہو۔ پُلس والے جب ”سچ پُتّر ” سے ابّے کی خدمت کرتے کرتے تھک جاتے تو ابّا کہتا ”بادشاہو! تھوڑا سا ہ کَڈ لوؤ۔اسیں تے ایتھے ای آں، کیہڑا نَس چلے آں۔ ابّے کی خدمت سے نڈھال پولیس والوں کی غیرت انگڑائی لے کر جاگ اُٹھتی اور کئی کئی پُلسیے اُس پر ٹوٹ پڑتے۔
میں نے غصّے سے کھولتے ہوئے پوچھا ”کیا یہ سب کچھ تمہارے لیے باعثِ فخر ہے۔ گوالے نے جواب دیا ”ہاں جی یہ کام تو بڑے بڑے چوہدریوں، رسہ گیروں اور ”ا’چیاں شاناں”والوں کا ہے۔اگر پولیس نے ابّا بہشتی کو ”پُلس مقابلے” میں پار نہ کر دیا ہوتا تو جتنی تیزی سے وہ ترقی کر رہا تھا، آج قومی اسمبلی کا ممبر ہوتا۔ گوالے کے اِس جملے نے مجھے چونکا دیا اور میں ماضی کے اوراق پلٹنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد میں اِس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ گوالے کا حرف حرف سچ تھا۔ نواز لیگ کو معروف کالم نگار حامد میر ”آخری اُمید” کہتے ہیں لیکن کڑوا سچ تو یہی ہے کہ نواز لیگ نے بھی ابھی تک مایوس ہی کیا ہے۔ اِس مایوسی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میاں برادران نے انتخابی مہم میں قوم کو جو سہانے سپنے دکھائے ، اُن کی تعبیر اُلٹ ہوگئی اور آج ابّا بہشتی جیسے کردار بھی ”طعنے مہنے” دیتے نظر آتے ہیں۔ اپنے ”ابّے” کی کرپشن کی الف لیلوی داستانوں پر فخر کرنے والے بلاول زرداری کو بھی غریبوں کا خون چوسنے والا ”شیر”نظر آنے لگا ہے۔
Bilawal Zardari
گویا ”چھاج بولے تو بولے، چھلنی بھی بولتی ہے جس میں ستّر چھید۔ بلاول زرداری کی انقلابی تقریر قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ کے مَن کو بہت بھائی۔ اُنہیں بلاول کے اندر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی روحیں اودھم مچاتی نظر آنے لگی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلاول کی تقریر نے سیاستدانوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور سبھی اُس پر گرجنے برسنے لگے ہیں۔ اپنے یہ شاہ صاحب بھی بڑی پہنچی ہوئی شئے ہیں۔ اپنی ”دبنگ مونچھوں ”کے سائے میں وہ ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ سُننے والا تا دیر لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔
ایک طرف تو وہ فرینڈلی اپوزیشن کا ایسا تاثر دیتے ہیں کہ تحریکِ انصاف جَل بھُن کر کباب ہو جاتی ہے جبکہ دوسری طرف وہ شیر پر تیر کا نشانہ باندھنے سے بھی نہیں چونکتے۔ بلاول زرداری اپنے ”ابّے” کو کمان سے تشبیہ دیتے ہیں اور اپنے آپ کو تیر سے لیکن پیپلز پارٹی کو مسٔلہ یہ آن پڑا ہے کہ ”تیر” تو نیا نویلا اور لشکارے مار رہا ہے جبکہ کُہن سالہ کمان اتنی بوسیدہ ہو چکی ہے کہ اب اُسے کاٹھ کباڑ کی نظر کر دینے میں ہی عافیت ہے لیکن شاید پیپلز پارٹی بھی اندر سے ”رجعت پسند” ہے ۔اسی لیے اُس کی سیاست پہلے گڑھی خُدا بخش کے شہیدوں کے گرد گھومتی تھی اور اب اِس میں”خاندانِ زرداریہ” بھی شامل ہو گیا ہے۔ اب ایک زرداری کمان ہے تو دوسرا تیر، بھٹوز کا تو نام و نشان نہیں۔
تحریکِ انصاف کو سیّد خورشید شاہ کی حزبِ اختلاف کی قیادت قبول نہیں۔ اُس نے چار و ناچار شیخ رشید احمد کو قائدِ حزبِ اختلاف بنانے کی ٹھان لی ہے۔ کپتان صاحب کو پتہ تھا کہ ایم کیو ایم کسی بھی صورت میں کسی ”سونامیے” کی حمایت نہیں کرنے والی اِس لیے قرعۂ فال شیخ صاحب کے نام نکلا۔اب شیخ صاحب ایم کیو ایم کو منانے کی بھرپور تگ و دو کر رہے ہیں لیکن اپنے مفادات کو ہر لحاظ سے عزیز رکھنے والی ایم کیو ایم طرار شیخ رشید کو بھی غچہ دے جائے گی۔ اُس نے تو ابھی یہ بھی طے نہیں کیا کہ مرکز میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا ہے یا میاں نواز شریف کی قیادت میں اقتدار کے مزے لوٹنے ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت خوب جانتی ہے کہ نواز لیگ شیخ رشید احمد کو قائدِ حزبِ اختلاف کی کرسی پر برا جماں ہوتے نہیں دیکھ سکتی اِس لیے اُمیدِ واثق یہی ہے کہ نواز لیگ کا موڈ دیکھتے ہوئے وہ شیخ صاحب کو طرح دے جائے گی۔ اُس نے اپنی سندھ کی گورنری بھی بچانی ہے۔ سیاست میرا کبھی موضوع نہیں رہا اور نہ میں سیاست کی الف، بے سے واقف ہوں۔ مجھے تو اپنے عظیم سیاستدانوں سے بھی واجبی سی واقفیت ہے۔
اگر کبھی کوئی بد باطن میرا امتحان لینے کی ٹھان لے تو ڈھول کا سارا پول کھُل جائے گا۔ پھر بھی دیکھ لیجئے کہ میں کتنے اعتماد سے سیاسی تجزیہ کر رہی ہوں۔ اگر کسی کو میرے اِس تجزیے سے اختلاف ہو تو وہ جائے ”بھاڑ میں” مجھے اِس سے کیا۔میں نے تو اپنے کالم کا پیٹ بھرنا تھا ، سو بھر لیا۔ ویسے بھی پاکستان میںایسے ارسطوانہ تجزیے کرنے والے بیس، تیس ہزار تو ہونگے ہی، اینکر اور ”اینکرنیاں ” اِس سے الگ ہیں اور اب تو ماشااللہ اداکار، اداکارائیں اور بھانڈ بھی جا بجا تجزیے کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر اُنہیں کوئی نہیں پوچھتا تو میرا کونسا کسی نے سر پھاڑ دینا ہے۔ میرے ایک سونامیے قاری نے مجھے برقی پیغام بھیجا کہ اتنا نہ اپنی جائے سے باہر نکل کے چل دُنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ ، سنبھل کے چل
تو عرض ہے کہ اِس معاملے میں میں بہت محتاط ہوں میں نے کبھی طالبان کے خلاف لکھا ہے نہ ایجنسیوں کے کیونکہ میں خوب جانتی ہوں کہ طالبان نے دارِ فانی سے کوچ کروانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور ایجنسیاں بندے کو یوں غائب کر تی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کا میں تہِ دل سے احترام کرتی ہوں اور جمہوریت کے لیے اُن کی خدمات کی معترف ہوں جنابِ چیف جسٹس کی عظمتوں کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے۔ اُن کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ اور خدمتِ عالیہ میں بصد عجز و نیازیہ عرض
تُو جاں بھی مانگ لے تو حاضر ہے بے دریغ تیرے لیے خلوص کی کوئی کمی نہیں
البتہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ اِن دونوں عظیم ہستیوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد میرے اِن کے بارے میں خیالات کیا ہونگے کیونکہ میں بھی ”بندہ بشر” ہوں اور اتنی ضدی ہر گز نہیں کہ” ایویں ای ” اپنی بات پہ اڑی رہوں۔ ہاں سیاستدانوں پہ مَیں خوب ہاتھ صاف کرتی رہتی ہوں کیونکہ یہ بیچارے تو ”ڈھول ڈنگر” ہیں۔ اِنہوں نے کونسا احتجاج کرنا ہے۔